عالمی بینک نے افغانستان کے منجمد 28 کروڑ ڈالر دو امدادی ایجنسیوں کو منتقل کرنے کی حمایت کی ہے، جو انہیں افغانستان میں انسانی بحران پر قابو پانے کے لیے استعمال کر سکیں گی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بدھ کو اس معاملے سے واقفیت رکھنے والے دو ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔
اس حوالے سے عالمی بینک کے زیر انتظام افغانستان کی تعمیر نو ٹرسٹ فنڈ (اے آر ٹی ایف) کے 31 ارکان کو پہلے ان فنڈز کی منتقلی کی منظوری دینی ہوگی تاکہ یہ رقم ورلڈ فوڈ پروگرام اور یونیسف کو منتقل کی جا سکے۔ ان ڈونرز کی ملاقات جمعے (تین دسمبر) کو متوقع ہے۔
عالمی بینک کے بورڈ نے منگل کو باقاعدہ ملاقات کی ہے تاکہ افغانستان کے ڈیڑھ ارب ڈالر میں سے تقریباً 50 کروڑ ڈالر انسانی امداد فراہم کرنے والے اداروں کو فراہم کیے جا سکیں۔
خیال رہے کہ 20 سال سے جنگ کے شکار افغانستان کی تین کروڑ 90 لاکھ آبادی کو معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ موسم سرما میں خوراک کی کمی اور غربت میں اضافے کا سامنا ہے۔
افغان ماہرین کے مطابق یہ مدد فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن یہ سوال تاحال اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ فنڈز افغانستان منتقل کس طرح کیے جائیں تاکہ امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی نہ ہو۔
گوکہ امریکی محکمہ خزانہ نے اس حوالے سے ’کمفرٹ لیٹرز‘ فراہم کر دیے ہیں جن میں بینکوں کو یقین دلایا گیا ہے کہ وہ انسانی امداد پر مبنی لین دین کر سکتے ہیں، لیکن اس کے باوجود امریکی پابندیاں بنیادی اشیائے ضروریہ کی فراہمی میں بھی رکاوٹ بن رہی ہیں جن میں خوراک اور ادویات شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اے آر ٹی ایف کی جانب سے کسی بھی رقم کی منتقلی کو پہلے اس کے تمام ڈونرز کی منظوری لینی ہوگی، جن میں امریکہ سب سے بڑا ڈونر ہے۔
ورلڈ بینک کی جانب سے رقم کی منتقلی کی حمایت پر تاحال وائٹ ہاؤس اور امریکی محکمہ خزانہ نے کوئی موقف نہیں دیا۔
عالمی بینک کے ایک ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ بینک کے بورڈ نے اس معاملے پر گفتگو کی ہے اور تمام ڈونرز جمعے کو اس حوالے سے منعقد ہونے والے اجلاس میں شریک ہوں گے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق افغانستان کے مرکزی بینک کے تقریباً ساڑھے نو ارب ڈالر کے ذخائر، جن میں سے زیادہ تر امریکہ میں موجود ہیں، اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد منجمد کر دیے گئے تھے۔
قبل ازیں افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ڈیبرا لائنز نے دنیا کو خبردار کیا تھا کہ یہ ملک ’انسانی تباہی کے دہانے پر ہے‘ اور اس کی گرتی ہوئی معیشت انتہا پسندی کے خطرے میں اضافہ کر سکتی ہے۔