ایک نئی رپورٹ کے مطابق انسانی تہذیب ممکنہ طور پر اپنی آخری دہائیوں میں داخل ہو چکی ہے اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث 2050 تک یہ دنیا سے مٹ جائے گی۔
مستقبل میں دنیا پر انسانی تہذیب کے حوالے سے شائع یہ رپورٹ خوف ناک حد تک پریشان کن ہے، جس کے مطابق ماحولیاتی بحران کے بڑھتے اثرات اور اس سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر بے حسی اس سیارے کو ایک ایسے تاریک مستقبل کی طرف دکھیل رہے ہیں جس میں دنیا بھر میں انسانی تہذیب ناپید ہو جائے گی۔
آسٹریلوی شہر میلبرن میں قائم تھنک ٹینک ’دی بریک تھرو نیشنل سینٹر فار کلائمیٹ ریسٹوریشن‘ کی اس رپورٹ کو آسٹریلین ڈیفنس فورسز کے سابق سربراہ اور رائل آسٹریلین نیوی کے ریٹائرڈ ایڈمرل کرِس بیری نے پیش کیا ہے۔
بیری رپورٹ کے تعارف میں کہتے ہیں کہ اس کے مصنفوں نے ’ہمارے سیارے اور انسانوں کی مایوس کن حالت کی حقیقت کو برہنہ نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس امکان کا ایک پریشان کن تصور فراہم کیا ہے کہ زمین پر انسانی زندگی ایک بدترین طریقے سے خاتمے کے راستے پر ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق ’ماحولیاتی تبدیلی اب انسانی تہذیب اور وجود کے لیے ایک عنقریب خطرہ بن گئی ہے۔‘
مصنفوں ک مطابق حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اس مسٔلے کو بد ترین سطح تک پہنچنے سے پہلے سنجیدگی سے لیتے ہوئے سائنس دانوں کے جاری کردہ مستقبل کی کلائمیٹ پروجیکشنز یا تصورات پر سنجیدگی سے غور کریں۔
اس میں یہ دلیل بھی دی گئی ہے کہ اگلی تیںن دہائیوں میں ماحولیاتی تبدیلی کے خوفناک اثرات، جیسے دنیا میں بڑھتا خوراک اور پانی کا بحران، موجودہ سماجی اور سیاسی عدم استحکام کو مزید بڑھانے کا کام کرے گا جس کا نتیجہ تنازعات اور خونی جنگوں کی صورت میں ظاہر ہوگا۔
یہ رپورٹ اس طرح کے ہولناک اثرات سے نمٹنے کی تیاری کے لیے حکومتوں کو ان کی رِسک منیجمنٹ طریقہ کار میں ایسی تبدیلی لانے کا مشورہ دیتی ہے ’جو روایتی عمل درآمد سے یکسر مختلف ہو۔‘
رپورٹ کی تحریر میں بریک تھرو کے ریسرچ ڈائریکٹر ڈیوڈ سپراٹ اور بین الاقوامی تیل، گیس اور کوئلے کی صنعت کے سابق ایگزیکٹو ایین ڈنلوپ شامل تھے جو رائل ڈچ شیل کے لیے کام کرنے کے ساتھ ساتھ آسٹریلین کول ایسوسی ایشن کے سربراہ بھی رہے ہیں۔
ان کے مطابق رپورٹ انسانوں کے ممکنہ مستقبل کی عکس بندی کرتے ہوئے ’دنیا میں (ممکنہ) ناقابل یقین افراتفری کی ایک جھلک فراہم کرتی ہے۔‘
گلوبل وارمنگ کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو اگلی دہائی تک تیزی سے ختم کرنے کے حوالے سے عالمی سطح پر موجودہ بامعنی عمل درآمد کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے، رپورٹ ایک ایسا کرہ عرض تصور کرتی ہے جس میں عالمی گرین ہاؤس گیسز کا اخراج 2030 میں بلند ترین ہوگا۔
مصنف رپورٹ میں موجودہ تحقیقات کے نتائج کا استعمال کرتے ہوئے یہ مفروضہ پیش کرتے ہیں کہ 2030 میں گیسوں کا اخراج عروج پر ہونے کی صورت میں 2050 تک اوسط عالمی درجہ حرارت صنعتی انقلاب کے دور کے درجہ حرارت سے تین سیلسیس تک بڑھ سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کا اثر ’ہاٹ ہاؤس ارتھ‘ کی صورت میں سامنے آئے گا جس سے ہمارے سیارے کا درجہ حرارت مزید ایک اور ڈگری بڑھنے کی طرف جائے گا۔
اس سے برف پگھل جائے گی اور سمندروں کی سطح مزید بلند ہوجائے گا۔ رپورٹ کے مطابق اس صورت حال میں کئی ماحولیاتی نظام متاثر ہوں گے، ’پرمافراسٹ (زمین کی جمی ہوئی سطح) ختم ہوجائے گی اور جنوبی امریکہ کے ایمزون جنگل میں بڑے پیمانے پر خشک سالی اور جنگل کی موت ہو گی۔‘
ممکنہ مستقبل کی منظر کشی کرتے ہوئے رپورٹ بتاتی ہے: ’جیٹ سٹریم (کرہ عرض پر چلنے والے ہوائی جھونکے) غیر مستحکم ہونے سے ایشیا اور مغربی افریقہ میں مون سون بارشوں کی شدت اور اس کی جغرافیائی تقسیم بری طرح متاثر ہو گئی ہے اور گلف سٹریم (بحری رو) بھی مزید کم رفتار کی ہوچکی ہے جس سے یورپ میں نظام زندگی شدید متاثر ہوا ہے۔‘
اس میں مزید تصور کیا گیا ہے: ’شمالی امریکہ میں شدید موسم کے اثرات سے یہ خطہ ہیٹ ویو، جنگلوں میں آگ، قحط اور سیلاب جیسی آفات کا سامنا کر رہا ہے۔ چین میں موسم گرما کا مون سون نظام ناکام ہوگیا ہے جبکہ ہمالیائی برف کا ایک تہائی سے زائد حصہ پگھل چکا ہے جس سے ایشیا کے عظیم دریاؤں میں پانی کا بہاؤ کم ہو گیا ہے۔ جنونی امریکہ کے اینڈیز پہاڑوں میں گلیشر 70 فیصد تک کم ہو چکا ہے جبکہ میکسیکو اور وسطی امریکہ میں بارشیں نصف رہ گئی ہیں۔‘
رپورٹ کے مطابق 2100 تک دنیا کا درجہ حرارت پانچ سیلسیس تک بڑھ سکتا ہے۔ سائنس دانوں نے پہلے سے ہی خبردار کیا ہے کہ دنیا کے درجہ حرارت میں چار سیلسیس کا اضافہ ایک منظم عالمی کمیونٹی کے قائم رہنے کے لیے ناسازگار ہے اور زیادہ تر ماحولیاتی نظاموں کو تباہ کردے گا۔
ورلڈ بینک کا بھی ماننا ہے کہ ہمارا سیارہ اس صورت حال کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
رپورٹ کے مطابق: ’درجہ حرارت میں دو سیلسیس کے اضافے کی صورت میں بھی ایک ارب سے زائد افراد کو منتقل کرنے کی ضرورت ہو گی، ایسے میں اگر ماحولیاتی صورت حال اس بھی زیادہ شدید ہوئی تو ممکنہ تباہی کا اندازہ لگانے کی صلاحیت ابھی ہماری نہیں۔ اس بات کا امکان کافی زیادہ ہے کہ انسانی تہذیب خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے۔‘
مصنفوں کا کہنا ہے کہ ’دنیا فی الحال اس تباہی کا تصور کرنے کے لیے بھی تیار نہیں جبکہ اس تباہ کن ماحولیاتی تبدیلی کے نتائج سے نمٹنے کے لیے تیاری تو دور کی بات ہے۔‘
تاہم وہ اس پیپر میں ایسی سفارشات پیش کرتے ہیں جن سے بدترین اثرات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق: ’اس خطرے کو کم کرنے اور انسانی تہذیب کو تحفظ دینے کے لیے اگلی دہائی میں بڑے پیمانے پرعالمی وسائل کو حرکت میں لانا ہوگا تاکہ زیرو ایمیشنز صنعتی نظام بنایا جائے (جس سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج صفر کے برابر ہو) اور محفوظ ماحول کو بحال کرنے کا کام شروع ہو۔‘
’ایسا کرنا دوسری عالمی جنگ کے دوران ایمرجنسی جیسے متحرک اقدامات لینے جیسا ہوگا۔‘
مصنف ایڈمرل بیری نے کہا: ’قیامت جیسا مستقبل ناگزیر نہیں! لیکن فوری طور پر سخت اقدامات کے بغیر ہم جلد اس کا سامنا کر سکتے ہیں۔ ہمیں اجتماعی طور پر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں حکومتوں میں، کاروباروں میں اور برادریوں میں مضبوط اور پُرعزم قیادت کی ضرورت ہے جو انسانیت کے لیے ایک پائیدار مستقبل کو یقینی بنا سکیں۔‘