کوئٹہ کی رہائشی فاطمہ کو بچپن سے تو کسی کھیل میں دلچسپی نہیں تھی مگر جب وہ یونیورسٹی میں پڑھنے گئیں تو وہاں انہوں کچھ لڑکیوں کو تیرانداز کرتے دیکھا تو وہاں سے ان کے دل میں بھی اس کھیل کو سیکھنے کا خواہش پیدا ہوئی۔
جس کے بعد فاطمہ نے 2018 سے تیراندازی سیکھنا شروع کی اور اس وقت وہ قومی سطح پر کھیلنے والی پروفیشنل کھلاڑی ہیں اور 2019 میں ہونے والے مقابلوں میں ٹاپ 16 تک رسائی حاصل کر چکی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ یہ کھیل دماغ اور سکون سے کھیلا جاتا ہے، اگر کوئی کھلاڑی پریشان ہو تو وہ نہیں کھیل سکتا ہے۔
’جب میں نے یہ کھیل شروع کیا تو لوگ مجھ سے پوچھتے تھے کہ کیا کر رہی ہو تو میں کہتی کہ آرچری ( تیر اندازی) سیکھ رہی ہوں تو وہ سوال کرتے یہ کیا چیز ہے۔ تب ان کو سمجھانا پڑتا تھا کہ ایسے کھیلا جاتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ کھیل تو ہم کھیل رہی ہیں لیکن ہمارے پاس کوئی سہولت نہیں ہے۔ گراؤںڈ نہیں کہ وہاں جاکر مشق کر سکیں اور اگر کوئی لڑکی ہو تو اس کے لیے اور بھی مشکل ہے۔‘
فاطمہ کہتی ہیں کہ مجھے بھی بہت وقت نہیں ملتا جب یونیورسٹی میں ایک دو گھںٹے مل جاتے ہیں تو میں جاکر اس کی مشق کرتی ہوں۔ گھر جانے کے بعد اس کو سیکھنے کے لیے ہمارے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔
’تیر اندازی مہنگا شوق ہے اور اس کو ہر ایک شخص اس سے قاصر ہے۔ کیوں کہ اس کی چیزیں مہنگی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اقدامات کرے اور سہولیات فراہم کرے تو کوئٹہ سے بہت سے نوجوان نہ صرف نیشنل بلکہ انٹرنیشنل سطح پرکھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
کھیل کے حوالے سے فاطمہ نے بتایا کہ اس میں جو نشانہ ہوتا ہے اس میں مختلف قسم کے رنگ ہوتے ہیں، جن میں پیلا رنگ اہم ہوتا ہے اور اگر کوئی کھلاڑی اس پر نشانہ لگا دے تو اس کو 10 پوائنٹس مل سکتے ہیں۔
فاطمہ کے بقول ’اسی طرح دوسرے جو پانچ رنگ ہوتے ہیں ان کو دو، دو پوائنٹس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سفید رنگ کا ایک اور دو، پھر پانچ، سات اور پھر دس پوائنٹس رکھے گئے ہیں۔‘
قومی اور عالمی سطح کے مقابلوں کے لیے کل سکور 720 پوائنٹس کا ہوتا ہے اور ہر کھلاڑی کو 72 تیر دیے جاتے ہیں، جن کو اس نے بورڈ پر مطلوبہ رنگوں کی جگہ پر ہٹ کرنا ہوتا ہے۔
فاطمہ نے بتایا کہ جب کھلاڑی ابتدائی طور پر سیکھتا ہے تو اس نے 10 میٹر کے فاصلے سے تیر لگانا ہوتا ہے۔ پھر 20 میٹر، 30 میٹر اور بعد میں 50 میٹر تک فاصلہ بڑھا دیا جاتا ہے۔
سہولیات کی کمی کا اعتراف آٹھویں قومی آرچری چیمپئن شپ کا انعقاد کرنے والے بلوچستان آرچری ایسوسی ایشن کے عہدیدار بھی کرتے ہیں۔
محمد یوسف بلوچستان آرچری ایسوسی ایشن کے فنانس سیکرٹری ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ کوئٹہ میں آرچری کا کوئی میدان موجود نہیں ہے۔
’یہ اعزاز ہماری ایسوسی ایشن کو جاتا ہے کہ ہم نے کوئٹہ میں قومی سطح پر مقابلوں کا انعقاد کرایا، جس میں پاکستان آرمی، نیوی، پولیس اور واپڈا کے علاوہ چاروں صوبوں کے 32 کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔‘
محمد یوسف کہتے ہیں کہ میں بنکاک بھی گیا ہوں میں نے وہاں دیکھا ہے کہ آرچری کے کھلاڑیوں کو ہر قسم کی سہولیات میسر ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں بھی بو اور ایرو کے ساتھ دیگر سامان مہیا کیا جائے تو ہم سکول کی سطح سے کھلاڑی سامنے لاسکتے ہیں۔