قیام پاکستان سے پہلے برطانیہ دور کا قدیم ڈاک خانہ لنڈی کوتل اب بھی اسی پرانی عمارت میں فعال ہے۔
اس ڈاک خانے کی قدیم عمارت کے ساتھ ساتھ ڈاک خانے میں زیر استعمال سٹمپس (مہریں) اب بھی وہی ہیں جو انگریز دور میں زیر استعمال رہیں۔
ڈاک خانے کے پوسٹ ماسٹر آفتاب احمد آفریدی کہتے ہیں کہ وہ گذشتہ 32 سالوں سے پاکستان پوسٹ میں ملازمت کر رہے ہیں۔ وہ اب اسی بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ وہ اس تاریخی ڈاک خانے لنڈی کوتل کے پوسٹ ماسٹر بن گئے ہیں۔
اس ڈاک خانے کی خاص بات اس کی مہریں ہیں جو ایک صدی سے زائد عرصے سے زیر استعمال ہیں۔
آفتاب احمد آفریدی کہتے ہیں کہ وہ ان تاریخی سٹمپس یعنی مہروں کا خاص خیال رکھتے ہیں کیونکہ یہ اب محض کام کی چیز نہیں بلکہ تاریخی ورثہ بھی شمار کی جاتی ہیں۔
ان کے مطابق یہ وہی مہریں ہیں جو قیام پاکستان سے پہلے لنڈی کوتل میں انگریز دور میں استعمال ہوتی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آفتاب آفریدی کہتے ہیں کہ ’ان مہریں کو ہر ہفتے مٹی کے تیل سے صاف کیا جاتا ہے اور ان کا بہت خیال رکھا جاتا ہے اور اگر ان کا دستہ ٹوٹ جائے تو ترکھان سے فوراً اسی ماڈل کا دستہ تیار کر کے دوبارہ قابل استعمال بنایا جاتا ہے۔‘
ان کے مطابق ان مہروں میں سے ایک دو مہروں کے دستے ٹوٹ چکے تھے جن کو دوبارہ اسی طرح تیار کیا گیا ہے۔
یہ مہریں لوہے کی بنی ہیں اور ان کو مینول طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ ڈبوں میں لوہے کے ہندسے اور مہینوں کے نام ہیں جنہیں تبدیل کر کے قابل استعمال بنایا جاتا ہے۔
پوسٹ ماسٹر آفتاب احمد آفریدی کے بقول ڈاک خانے میں ان مہروں سے زیادہ کوئی چیز قیمتی نہیں۔ اس لیے وہ ان کی سخت حفاظت کرتے ہیں اور استعمال کے بعد ان کو تالا لگا کر رکھ دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ لنڈی کوتل کا یہ ڈاک خانہ پاکستان کے قدیم ڈاک خانوں میں شمار کیا جاتا ہے جو قیام پاکستان سے پہلے سے فعال ہے۔