بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش کے شہر متھرا میں سخت گیر ہندو تنظیم اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا کے تاریخی شاہی عیدگاہ مسجد میں چھ دسمبر کو ہندوؤں کے ’بھگوان کرشن‘ کی مورتی نصب کرنے کے اعلان سے مقامی مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا کی خاتون رہنما راج شری چوہدری کا دعویٰ ہے کہ ’متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد اصل میں بھگوان کرشن کی جنم بھومی ہے اور اسے مغل شہنشاہ اورنگزیب نے اپنے دور حکمرانی میں مندر کو توڑ کر بنوایا تھا۔‘
’لہٰذا چھ دسمبر کو اس جگہ پر مہا جل ابھیشیک (پانی سے دھونے) کی تقریب منعقد ہو گی جس کے لیے مقدس دریاؤں کے پانی کو استعمال کیا جائے گا۔ پھر بھگوان شری کرشن کی مورتی ان کے جنم کے اصل مقام پر نصب کی جائے گی۔‘
راج شری چوہدری بھارت کی تحریک آزادی کے کارکن نیتا جی سبھاش چندر بوس کی پڑ پوتی ہیں۔
ان کے اس بیان کے بعد نارائنی سینا نامی ایک اور سخت گیر ہندو تنظیم نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ چھ دسمبر کو جمنا کے وشرام گھاٹ سے شری کرشنا جنم استھان یعنی عیدگاہ تک ایک ’سنکلپ یاترا‘ نکالیں گے۔
اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا نے متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد میں بھگوان کرشن کی مورتی نصب کرنے کے لیے بابری مسجد کے انہدام کی برسی کا دن چنا ہے۔
چھ دسمبر 1992 کو ہزاروں ہندوتوا کارکنوں نے اسی ریاست کے شہر ایودھیا میں واقع بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا اور اس جگہ پر اب ایک بڑے رام مندر کی تعمیر کا کام جاری ہے۔
تاریخی شاہی عیدگاہ مسجد میں چھ دسمبر کو ہندوؤں کے بھگوان کرشن کی مورتی نصب کرنے کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب آبادی کے لحاط سے بھارت کی اس سب سے بڑی ریاست (اتر پردیش) میں انتخابات چند ہی ماہ دور ہیں اور انتخابی مہم آہستہ آہستہ زور پکڑ رہی ہے۔
متھرا کی مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہندو مہا سبھا، نارائنی سینا اور دیگر ہم خیال تنظیموں کو شہر کے پُرامن ماحول کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی نیز جن افراد نے بھی شاہی عیدگاہ مسجد میں مورتی رکھنے کے متعلق سوشل میڈیا پر لوگوں کو اکسانے کی کوششیں کی ہیں اُن کو حراست میں لیا گیا ہے۔
تاہم معاملے پر بیانات دینے والوں میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے کٹر ہندو وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے نائب کیشو پرساد موریہ بھی شامل ہیں، جن کے خلاف اب تک کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
انہوں نے گذشتہ روز اپنی ایک ٹویٹ میں کہا: ’ایودھیا کاشی میں شاندار مندر کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ متھرا کی تیاری ہے۔‘
ان کی اس ٹویٹ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی چاہتی ہے کہ انتخابات سے قبل متھرا میں ’کرشن جنم بھومی‘ کے نام پر سخت گیر ہندو کوئی کارروائی انجام دیں یا کم از کم انتخابات میں فائدہ پہنچانے والے بیانات دیں۔
’ایودھیا اور متھرا میں فرق نہیں‘
انڈپینڈنٹ اردو نے متھرا شہر کے کئی مسلمانوں اور ہندوؤں سے بات کی، جن کا کہنا تھا کہ ہمارا آپسی بھائی چارہ مثالی ہے اور جو عناصر یہاں کے ماحول کو خراب کرنا چاہتے ہیں اُن کا تعلق شہر سے نہیں ہے۔
نیلانجن مکھوپادھیائے ایک سینیئر صحافی اور ’دا ڈیمولیشن اینڈ دا ورڈکٹ: ایودھیا اینڈ دا پروجیکٹ ٹو ریکن فگر‘ سمیت کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ایودھیا میں بھی ہندو اور مسلمان آپسی بھائی چارے سے رہتے تھے۔ وہاں مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد رہائش پذیر تھی جن سے ہم ملا کرتے تھے۔
’میں اُن صحافیوں میں سے ایک ہوں جس نے ایودھیا جا کر 1986 میں بابری مسجد معاملے پر گراؤنڈ رپورٹنگ کی تھی۔ پھر اس گراؤنڈ رپورٹنگ کا سلسلہ ایک لمبے وقت تک جاری رہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہمیں آج جو چیز متھرا میں دکھائی دے رہی ہے وہی چیز تب ایودھیا میں دکھائی دی تھی۔ میرے لیے تو کچھ نیا ہو نہیں رہا ہے۔ وہی چیز دہرائی جا رہی ہے۔ لوگوں کو سوچنا ہے کہ کیا وہ پھر سے بہک کر ووٹ کریں گے یا اپنے خالی پیٹ اور خالی بٹوے کو دیکھ کر۔‘
پوچھا گیا کہ ’کہیں متھرا میں بابری مسجد جیسا واقعہ دہرانے کی کوشش تو نہیں ہو رہی ہے‘ تو نیلانجن مکھوپادھیائے کا کہنا تھا: ’وہ لوگوں پر منحصر کرتا ہے کہ وہ پھر سے بیوقوف بننا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اشتعالی ٹولے کی باتوں میں آ کر اگر لوگوں کو لگے گا کہ روزگار سے زیادہ اہم مسلمانوں کو سبق سکھانا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں، فیصلہ بالآخر لوگوں کو ہی کرنا ہے۔ جمہوریت میں تو لوگوں کا فیصلہ بڑا معنی خیز ہوتا ہے۔‘
نیلانجن مکھوپادھیائے کہتے ہیں کہ بی جے پی والوں کو پریشانی لاحق ہو گئی ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر انتخابات نہیں جیت سکیں گے ’لہٰذا وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔‘
’وہ اشتعال انگیز ہتھکنڈے استعمال کرنے لگے ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ پچھلے کئی دنوں سے گنگا جمنا کی بات کر رہے ہیں۔ امت شاہ نے ایک انتخابی ریلی میں جمعے کی نماز پر بات کی ہے۔ اتر پردیش کی حکومت پچھلے دو سال سے مسلسل فرقہ پرستی کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ لو جہاد، بین المذہبی شادیوں اور مسلمانوں کی آبادی کو روکنے کے لیے قوانین بنانے کی ان کی پروپیگنڈا پر مبنی کارروائیاں جاری ہیں۔ اس طرح کی سیاست ایک ترقی پذیر ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ مذہبی منافرت پھیلا کر ووٹ حاصل کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ ترقی کو لے کر سنجیدہ نہیں ہیں۔ ان کے لیے اقتدار ہی اہم ہے۔ ترقی کی بنیاد پر اقتدار میں آ نہیں سکتے۔ ان کو وہی مندر مسجد اور ہندو مسلم کے نام پر انتخابات جیتنے کا ہنر آتا ہے۔ ان کو فکر نہیں کہ دنیا میں ہماری بدنامی ہو رہی ہے۔ یہاں سرمایہ کاری بھی فرقہ وارانہ مزاج کو دیکھ کر ہی کی جاتی ہے۔‘
سنہ 1968 کا معاہدہ
شاہی عیدگاہ مسجد کی منیجنگ کمیٹی کے سرپرست ڈاکٹر ظہیر حسن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’1968 میں طرفین یعنی ہندو اور مسلمان مسجد اور مندر کی زمین کے متعلق جوں کی توں حالت برقرار رکھنے کا معاہدہ کر چکے ہیں۔
’یہاں پر مندر اور مسجد ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ دراصل آج سے 150 سال پہلے یہاں صرف مسجد تھی مندر نہیں تھا۔ پھر ہمارے ہندو بھائیوں کو محسوس ہوا تو انہوں نے مسجد کی پشت میں ایک وشال (بڑا) مندر بنایا۔ اس کے درشن کے لیے اب بڑی تعداد میں لوگ دور دور سے آتے ہیں۔‘
’پھر جب 1960 کی دہائی میں تنازعے نے جنم لیا تو 1968 میں شاہی عیدگاہ کی مسجد اور کرشن جنم بھومی کمیٹی کے عہدیدار ایک جگہ پر بیٹھے اور ایک معاہدہ طے پایا کہ ہم سبھی مقدموں کو واپس لے کر جوں کی توں حالت برقرار رکھیں گے۔ معاہدے میں مسجد اور مندر دونوں کی اراضی کی ملکیت کا تعین ہوا تھا اور معاملہ ہمیشہ کے لیے حل کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ سبھی نے اس معاہدے کو تسلیم کیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک سب کچھ ٹھیک چلا آ رہا تھا۔‘
ڈاکٹر ظہیر حسن نے بھارت کے بابائے قوم مہاتما گاندھی پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور بقول ان کے وہ اس وقت مرزا غالب اور جان کیٹس کی شاعری پر اپنا ڈی لٹ مقالہ لکھ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’شاہی عیدگاہ مسجد سے جڑے اس مندر کی کمیٹی کا سب سے بڑا کام کتابیں شائع کرانا ہے۔ اس کمیٹی نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ آپ ہمیں ایسے مسلمان شاعروں کے بارے میں بتائیں جنہوں نے بھگوان کرشن اور ہندو دیوی رادھا کے بارے میں اپنے کلام میں ذکر کیا ہے۔ میں نے پھر ایسے مسلمان شاعروں کے کلام پر باضابطہ مضامین بھی لکھے۔ میری اپنی ایک بڑی لائبریری ہے جہاں میں کالی داس پر جشن کا اہتمام کرتا ہوں۔ اس میں متھرا سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے ہندو پنڈتوں کو مدعو کرتا ہوں۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں یہ کیسے ممکن ہوتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ علم ہے تو سب کے لیے ہے۔ جو بھی میڈیا والے میرے پاس آتے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ میرے ساتھ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی باتیں نہیں کرنا۔ مجھ سے مندر مسجد کی نہیں بلکہ انسانیت اور پیار و محبت پر بات ہو۔‘
’نماز پڑھیں گے بھلے شہید کر دیے جائیں‘
ڈاکٹر ظہیر حسن نے بتایا کہ جب متھرا کے مسلمانوں کو پتہ چلا کہ کسی تنظیم نے اس مسجد میں مورتی رکھنے کا اعلان کیا ہے تو ان میں خوف اور ہمت ایک ساتھ پیدا ہوئی۔
’ہندو مہا سبھا کے اعلان کے بعد مسلمانوں میں دو چیزیں پیدا ہوئیں ایک خوف اور دوسرا اب ہم عیدگاہ میں ہی نماز پڑھیں گے چاہے کیوں نہ شہید کر دیے جائیں۔ جو جمعے کی نماز نہیں پڑھتے تھے یا دوسری کسی جگہ پر پڑھتے تھے وہ بھی عیدگاہ آنا شروع ہو گئے۔ ہم لوگوں نے ضلع مسجٹریٹ اور پولیس کے سینیئر عہدیداروں سے کئی ملاقاتیں کی ہیں۔ ان میں ایک بات پر زور دیا گیا کہ کوئی ہنگامہ برپا ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
’انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ہم یہاں کسی مورتی کی تنصیب اور پوجا کی بھی اجازت نہیں دے سکتے۔ خدا کا بڑا شکر ہے کہ اب تک سب ٹھیک ہے۔ بڑی تعداد میں پولیس فورس کو تعینات کیا گیا ہے جو ضروری بھی ہے۔ عیدگاہ میں داخل ہونے کے لیے جامہ تلاشی لی جاتی ہے اور شناختی کارڈ دیکھے جاتے ہیں۔ نمازیوں کو میٹل ڈیٹیکٹر والے دروازے سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ یہ جامہ تلاشی اور شناختی کارڈ چیک کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس کی وجہ مسجد اور مندر کا ایک جگہ ہونا ہے۔‘
ڈاکٹر ظہیر نے سینیئر صحافی اور مصنف نیلانجن مکھوپادھیائے کی ’ایودھیا اور متھرا میں فرق نہ ہونے کی بات‘ سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا: ’دونوں جگہوں میں فرق ہے۔ ایودھیا ایک کھنڈر میں تبدیل ہو چکا تھا۔ بابری مسجد میں نماز نہیں ہوتی تھی، لیکن جب سے متھرا کی یہ مسجد بنی ہے یہاں پانچوں وقت کی نماز ادا ہوتی ہے۔
’1991 میں اُس وقت کی کانگریس حکومت نے عبادت گاہوں کے متعلق ایک خصوصی قانون منظور کیا ہے جس کی رُو سے ملک میں 15 اگست 1947 کو جو عبادت گاہیں جس شکل میں تھیں ان کی وہ شکل و حیثیت برقرار رہے گی۔ ایودھیا تنازعے کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا کیوں کہ یہ معاملہ تب عدالت میں زیر سماعت تھا۔ اس قانون کا اطلاق متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد سمیت تمام دیگر عبادت گاہوں پر ہوتا ہے۔‘
متھرا سے تعلق رکھنے والے صحافی ناصر قریشی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شاہی عیدگاہ پورے بھارت کے عیدگاہوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور دلکش ہے۔
’اسی عیدگاہ گاہ کے احاطے میں 17 ویں صدی عیسوی میں بنی ایک مسجد ہے جس کے متعلق دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ بھگوان کرشن کی جنم بھومی ہے۔ اس میں ایک ساتھ ہزاروں لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد اور مندر کے درمیان زیادہ سے زیادہ ایک سو میٹر کا فاصلہ ہے۔‘