پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے سیالکوٹ کے واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’جب تک میں زندہ ہوں انشاء اللہ میں آگے سے یہ نہیں ہونے دوں گا۔‘
منگل کو اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں وزیراعظم عمران خان نے سیالکوٹ کی فیکٹری کے سری لنکن مینیجر پریانتھا کمارا کو مشتعل ہجوم سے بچانے کی کوشش کرنے والے ملک عدنان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ سب نے دیکھا کہ ایک انسان راہ حق پر کھڑا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ تاریخ یاد رکھے گیا کہ ایک انسان تھا جو حیوانوں کے سامنے کھڑا ہوا تھا۔
وزیر اعظم نے بتایا کہ ’سیالکوٹ کی تاجر برادری نے پیغام بھجوایا ہے کہ وہ ایک لاکھ ڈالرز جمع کیے ہیں جو پریانتھا کمارا کے اہل خانہ کو بھجوائے جائیں گے اور ان کی تنخواہ ہمیشہ ان کے گھر جاتی رہے گی۔‘
اس سے قبل پاکستان میں منگل کو مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما نے سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پریانتھا کمارا پر ہجوم کے تشدد اور جلا کر ہلاک کرنے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’غیر اسلامی‘ اور ’ماورائے عدالت قتل‘ قرار دیتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
آج صبح پاکستانی علما و مشائخ کی بڑی تعداد نے اسلام آباد میں سری لنکا کے سفارت خانے کا دورہ کیا جہاں انہوں نے ہائی کمشنر وائس ایڈمرل (ر) موہن وجیو کرما سے سیالکوٹ واقعے پر تعزیت کرتے ہوئے سری لنکا کی عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا۔
اس موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بعض علما نے سیالکوٹ میں پیش آنے والے واقعے کے خلاف ناپسندیدگی کے اظہار کے لیے 10 دسمبر (جمعے) کو یوم مذمت منانے کی تجویز بھی دی۔
یاد رہے کہ جمعہ (3 دسمبر) کو سیالکوٹ کی ایک فیکٹری کے سینیئر مینیجر پریانتھا کمارا کو فیکٹری کے ملازمین سمیت سینکڑوں مظاہرین نے تشدد کرکے ہلاک کر دیا تھا اور بعد میں توہین مذہب کے الزام میں ان کی لاش کو جلا دیا گیا۔
پاکستانی علما و مشائخ کے وفد کی قیادت پاکستانی کے مفتی تقی عثمانی کر رہے تھے جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز، مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما اور مزارات اور مدارس کی دیکھ بھال کرنے والے بزرگ حضرات وفد میں شامل تھے۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے مذہبی ہم آہنگی مولانا طاہر اشرفی بھی علما و مشائخ کے وفد میں شامل تھے۔
سری لنکا کے ہائی کمشنر سے ملاقات کے بعد علما کا مشترکہ بیان پڑھتے ہوئے ڈاکٹڑ قبلہ ایاز نے کہا: ’یہ ایک غیر انسانی فعل تھا، اور بغیر ثبوت کے کسی پر توہین مذہب کا الزام لگانا شریعت کے مطابق نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے تمام علما اس ہولناک واقعے پر اظہار تعزیت اور یکجہتی کے لیے جمع ہوئے تھے۔
’یہ سانحہ دنیا بھر میں غم و غصے کا باعث بنا کیونکہ ہجوم نے ایک شخص کو بے دردی سے قتل کیا اور بعد میں اس کی لاش کو جلا دیا۔‘
ڈاکٹر قبلہ ایاز نے واقعے کو قرآن پاک کی تعلیم اور پاکستان کے آئین و قانون کے خلاف قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ کچھ لوگوں کے اس فعل سے پاکستانی عوام کو شرمندگی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا: ’ان شرپسندوں کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ اسلام میں انتہا پسندی اور تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے اور علما پر زور دیا کہ وہ اس لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ علمائے کرام نے پریانتھا کمارا کو ہجوم سے بچانے کی کوشش کرنے والے ملک عدنان کو تمغہ شجاعت دینے کے وزیر اعظم عمران خان کے فیصلے کی مکمل حمایت کی ہے۔
قبل ازیں سری لنکا کے ہائی کمشنر وجیوکراما نے سیالکوٹ کے واقعے کو ایک ’خوفناک اور ہولناک‘ فعل قرار دیا تاہم انہوں نے کہا کہ وہ گرفتاریوں اور قانونی کارروائی کے آغاز سے مطمئن ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’میں نے دیکھا ہے کہ پچھلے تین دنوں میں پاکستان میں تمام علاقوں سے لوگ اس واقعے کی مذمت کر رہے ہیں اور وہ سب کہتے ہیں کہ ’یہ پاکستان نہیں ہے‘ اور ہم اس پر یقین رکھتے ہیں۔‘
سری لنکا کے ہائی کمشنر وجیوکراما نے اعتراف کیا کہ پاکستان اور سری لنکا دونوں نے متعدد مواقع پر ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیالکوٹ میں ہونے والے اس خاص واقعے سے دونوں ممالک کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
ہائی کمشنر نے مزید کہا کہ کمارا کے خاندان کو مناسب معاوضہ فراہم کیا جانا چاہیے۔
مفتی تقی عثمانی نے اس موقع پر کہا کہ ’سیالکوٹ میں جس طرح جنون کا مظاہرہ کیا گیا پاکستان میں کوئی ایسا طبقہ نہیں جو اس قتل کی مذمت نہ کرتا ہو۔ انہوں نے کہا اس واقعے نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’ہم اس واقعے پر اپنے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور اس واقعے میں ملوث مجرمان کو سخت سزا دی جائے گی۔‘
مفتی تقی عثمانی نے پاکستانی ریاست سے پریانتھا کمارا کے پسماندگان کو جائز معاوضہ ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔
وفاق المدارس العربیہ کے سربراہ علامہ حنیف جالندھری نے کہا کہ ’علما کا وفد دو اہم مقاصد کے لیے یہاں آیا ہے، جن میں ایک تو سیالکوٹ کے اندوہناک واقعے پر افسوس اور دوسرا سری لنکا کی عوام اور حکومت اور متاثرہ خاندان سے اظہار یکجہتی ہے۔‘
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ حکومت پاکستان مجرموں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرے گی۔
مولانا حنیف جالندھری نے اس موقع پر تجویز دی کہ آئندہ جمعے کو یوم مذمت کے طور پر منایا جائے جس میں علما اقلیتیوں کے حقوق پر روشنی ڈالیں گے اور اس موضوع پر مساجد و امام بارگاہوں میں خطبات دیے جائیں۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے مذہبی ہم آہنگی طاہر اشرفی نے پاکستان کے چیف جسٹس سے گزارش کی ہے کہ اس واقعے کا ’سپیڈی ٹرائل‘ کیا جائے۔
سابق وفاقی وزیر مذہبی امور صاحبزادہ حامد سعید کاظمی نے کہا: ’یہ مذہبی علما یہاں تعزیت کے لیے آئے ہیں، مگر ہمارے پاس کہنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ بہت ظالمانہ اقدام ہے، جس کی کوئی وجہ پیش نہیں کی جاسکتی ہے۔