گلگت بلتستان کے سابق جج رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کیس کے دوران آج فرد جرم عائد نہیں ہوسکی۔ دوران سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’جس طرح اب بیانیے بن رہے ہیں، اس کی وجہ سے جھوٹ سچ اور سچ جھوٹ لگنے لگا ہے۔ یہاں پر سیاسی بیانیے کے لیے چیزیں تباہ ہو جاتی ہیں۔‘
پیر کو صبح 10 بجکر20 منٹ پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس قومی اہمیت حاصل کرنے والے مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ’رانا شمیم صاحب کہاں ہیں؟‘ تو عدالت کو بتایا گیا کہ ’پہلے حکم نامے میں 11 بجے کا وقت لکھا تھا، اس لیے رانا شمیم اس وقت تک ہی آئیں گے۔‘
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’نو دسمبر کو رانا شمیم کے نواسے نے لندن سے ڈی ایچ ایل کے ذریعے بیان حلفی بھیجا، تین دن پہنچنے میں لگیں گے، شاید آج مل جائے۔‘
چیف جسٹس نے عدالتی معاون ناصر زیدی سے استفسار کیا کہ ’رانا شمیم نے جو تحریری جواب جمع کروایا ہے، اس کی روشنی میں آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟‘ ناصر زیدی نے جواب دیا کہ ’صحافی کا کام خبر چھاپنا ہے اور انصار عباسی ایسے صحافی ہیں جو ہمیشہ مستند خبر دیتے ہیں۔‘
اس پر عدالت نے کہا کہ ’آپ کو ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ہم انصار عباسی صاحب کو جانتے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اگر آپ اپنی خبر پر عدالت کی جانب سے بھی لکھ دیتے کہ جب نواز شریف کا فیصلہ آیا اور جس جج کی جانب اشارہ دیا جا رہا ہے، وہ جج تو تعطیل پر تھے اور دوسرے بینچ نے کیس سنا، اس سےصورت حال مختلف ہو سکتی تھی۔ آپ کو خبر میں تمام اطراف کی صورت حال واضح کرنی چاہیے تھی تاکہ کسی کے دل میں ہائی کورٹ کے حوالے سے شبہ پیدا نہ ہوتا۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’اس کیس کو میں توہین عدالت کے طور پر نہیں سن رہا بلکہ یہ میری عدالت کی تکریم کا معاملہ ہے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ ’آپ سب نے بھی کوڑے کھائے ہیں وہ بھی تلخ حقیقت ہے لیکن یہ اسلام آباد ہائی کورٹ ہے۔ ڈیلی ٹائم اور گارڈین میں برطانیہ میں توہین عدالت کے معاملے پر تین تین ماہ کی قید ہوچکی ہے۔ اس عدالت کے سامنے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد ہو رہا ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ ایسی خبریں چھاپ کر بین الاقوامی سطح پر عدالت کو بدنام کیا جائے۔‘
چیف جسٹس نے عدالتی معاونین سے استفسار کیا کہ ’کیا ایسا خفیہ حلف نامہ یا دستاویز چھاپی جاسکتی ہے؟‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’صحافت میں انصاف کے پیمانوں میں مداخلت کی کوشش یا عوام کا عدالت پر اعتماد متزلزل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس نے ناصر زیدی کو مخاطب کرکے کہا کہ ’آپ مجھے بین الاقوامی سطح پر صحافی تنظیم کا نام دے دیں، انہیں عدالتی معاون بنا کر ان سے بھی پوچھ لیں گے کہ ایسی صورت حال میں کیا ہونا چاہیے، لیکن میں یہ آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ کیونکہ آپ میرے لیے مقدم ہیں۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا: ’آج کے دور میں سچ جھوٹ بن رہا ہے اور جھوٹ سچ بن رہا ہے۔ ہمیں یہ نہ بتائیں کہ ایسا اس لیے ہوا کہ یہ ہوتا رہا ہے بلکہ مجھے اسلام آباد ہائی کورٹ کا بتائیں۔ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ پر بداعتمادی پیدا کی گئی تو سب یہی کریں گے۔ میں اپنے ججوں کا اعتماد متزلزل نہیں ہونے دوں گا۔ میرے جج احتساب کے لیے تیار ہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے رانا شمیم کا عدالت میں جمع کروایا ہوا بیان پڑھ کر سنایا، جس میں انہوں نے کہا کہ ’ایسا بیان حلفی دینا کسی کو بدنام کرنا نہیں اور نہ ہی اسے عام کرنے کا مقصد تھا۔ اس بیان حلفی کا اصل مقصد مرحوم اہلیہ سے وعدہ پورا کرنا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ بہت اہم ہے کہ جمع کروائے گئے بیان میں بیان حلفی کا مقصد واضح کیا گیا ہے لیکن یہ بیان حلفی میڈیا تک کیسے پہنچا یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ راناشمیم نے کہا کہ اگر عدلیہ کی توہین مقصود ہوتی تو بیان حلفی پاکستان میں ریکارڈ کرا کے میڈیا کو دیتا۔‘
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ’کیس فرد جرم کا بنتا ہے، آئندہ تاریخ پر رانا شمیم پر فرد جرم عائد کی جائے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’میڈیا کو یہ دستاویز لیک کرنے والے اور کوئی نہیں وہ خود ہی ہیں۔ اب معاملہ صرف توہین عدالت کا نہیں بلکہ جعل سازی کا بھی ہے، اس لیے یہ دونوں کارروائیاں ہونی چاہییں۔‘
چیف جسٹس نے روزنامہ جنگ کے سینیئر صحافی انصار عباسی کو مخاطب کرکے کہا کہ ’انصار صاحب آپ کو علم ہے کہ آپ کی ایک ہیڈ لائن نے کیا کیا ہے؟ اگر عوام کا اس عدالت پر اعتماد ختم ہو گیا تو سب ختم ہو جائے گا۔ پھر یہ عدالت بنیادی حقوق کے کیسز نہیں سن سکے گی۔‘
اس پر انصار عباسی نے جواب دیا کہ ’ہم ہمیشہ سچ کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔‘ اس پر عدالت نے کہا: ’اس بات کو آپ چھوڑ دیں۔ نہ آپ اہم ہیں نہ ہم اہم ہیں۔ اہم ہے تو عوام اور سائلین اہم ہیں۔‘
چیف جسٹس نے انصار عباسی سے مزید کہا کہ ’عدالت آپ سے سورس یا خبر کے ذرائع نہیں پوچھ رہی اور نہ پوچھ سکتی ہے۔‘
اس اثنا میں رانا شمیم دس بجکر 56 منٹ پر عدالت پہنچے۔ عدالت دس منٹ کے وقفے کے بعد شروع ہوئی تو معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ رانا شمیم کے وکیل کو ابھی تاخیر ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے کہنے پر انہیں ایک موقع اور دے رہے ہیں کہ وہ بیان حلفی کے معاملے پر عدالت کو مطمئن کر سکیں اور تب تک اصل بیان حلفی بھی عدالت کو مل جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ’رانا شمیم نے جو جواب دیا وہ انصار عباسی کے جواب کے ساتھ تضاد پیدا کر رہا ہے، انصار عباسی اور دیگر جن پر توہین عدالت کا الزام ہے، ان کو کاؤنٹر بیان حلفی جمع کرانے کا کہا جائے۔‘
جس کے بعد عدالت نے رانا شمیم سمیت تمام فریقین سے دیے گئے دلائل کے پیش نظر جوابی بیان حلفی طلب کرتے ہوئے سماعت 20 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
رانا شمیم کی صحافیوں سے غیررسمی گفتگو
سماعت کے بعد رانا شمیم کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو صحافیوں نے ان پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ ان سے پوچھا گیا کہ ’سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے اس کے بعد کہیں ملاقات ہوئی؟‘ تو رانا شمیم نے چلتے چلتےکہا کہ ’بس میں نے بات کر لی ہے۔‘
دوسرا سوال کیا گیا کہ ’آپ کے بچے مختلف دعوے کرتے رہتے ہیں؟ ان کی تصدیق یا تردید کریں گے؟‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’انہی سے پوچھیں، میرا ان سے کیا تعلق ہے۔‘
تیسرا سوال کیا گیا کہ ’اٹارنی جنرل نے فرد جرم عائد کرنے کی استدعا کی آپ نے اس کی مخالفت نہیں کی؟‘ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’انہوں نے میرے سامنے نہیں کہا، اس لیے مجھے اس کا نہیں پتہ۔‘
چوتھا سوال کیا گیا کہ ’غیر مشروط معافی کا آپشن ہمیشہ کھلا رہتا ہے؟‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’مجھے عدلیہ کی عزت کا بہت احترام ہے۔‘
اس جواب پر ایک اور سوال کیا گیا کہ ’پھر تین سال تک خاموش کیوں رہے؟ پہلے عدلیہ کی عزت کیوں نہیں بچائی؟‘ تو رانا شمیم نے کہا کہ ’کچھ ثاقب نثار سے بھی پوچھیں۔‘ اس کے بعد رانا شمیم صحافیوں سے بچتے بچاتے بار روم چلے گئے۔
کیس میں کب کیا ہوا؟
نومبر 2021 میں جنگ اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ’گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا ایم شمیم نے اپنے مصدقہ حلف نامے میں کہا ہے کہ وہ اس واقعے کے گواہ تھے، جب اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو حکم دیا تھا کہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔‘
کہا گیا کہ سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم نے یہ بیان اوتھ کمشنر کے روبرو 10 نومبر 2021 کو دیا ہے۔ اس خبر کے شائع ہونے کے بعد رانا شمیم نے خبر کی میڈیا پر آ کر تصدیق کی تھی جبکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس خبر کی سختی سے تردید کی۔
خبر شائع ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاملے پر ازخود نوٹس لے کر اخبار اور رانا شمیم کو شوکاز نوٹس جاری کر دیے تھے۔