سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار پر لگے الزامات کے از خود نوٹس کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی انصار عباسی اور گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ جج کے بیان حلفی میں کہے گئے الفاظ کا ثبوت پیش کریں کیونکہ الزام عدالت پر لگا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں منگل کو کیس کی سماعت ہوئی جہاں میڈیا نمائندگان اور وکلا کی بڑی تعداد موجود تھی۔ خبر شائع کرنے والے صحافی انصار عباسی، ادارے کے ایڈیٹر اور سربراہ میر شکیل الرحمٰن بھی عدالت میں موجود تھے جبکہ فریق جج رانا شمیم عدالت میں حاضر نہیں ہوئے۔
رانا شمیم کی جگہ ان کے صاحبزادے عدالت میں پیش ہوئے اور لیپ ٹیپ تھامے عدالت کو کوئی ٹی وی شو کی فوٹیج دیکھانا چاہتے تھے لیکن عدالت کی سکیورٹی نے لیپ ٹاپ اندر لے جانے کی اجازت نہیں دی۔
دس بج کر 38 منٹ پر سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میر شکیل سامنے آئیں۔ انہوں نے کہا، ’بہت بھاری دل کے ساتھ بلایا گیا ہے اور دکھی دل کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ آزادی اظہار رائے اہم ہے لیکن عدلیہ کا وقار بھی اہم ہے۔‘
تمام فریقین روسٹرم پر موجود چیف جسٹس کو خاموشی سے سن رہے تھے۔ چیف جسٹس نے میر شکیل سے کہا کہ سوشل میڈیا اور اخبارات میں یہ فرق ہوتا ہے کہ اخبار کی ادراتی پالیسی اور روک تھام ہوتی ہے۔ ’سب جوابدہ ہوتے ہیں، میں بھی جوابدہ ہوں، آپ بھی جوابدہ ہیں۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر ایک سابق چیف جج نے کوئی بیان حلفی دیا تو آپ وہ فرنٹ پیج پر چھاپیں گے؟ ’آپ پیغام رساں نہیں، میں پوچھتا ہوں کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ پلیز ہیڈ لائن پڑھیں۔‘
جواب میں میر شکیل الرحمٰن نے کہا کہ ان کی عینک پتہ نہیں کہاں ہے۔ اس پر عدالت نے سینیئر صحافی انصار عباسی سے کہا کہ وہ ہیڈ لائن اور خبر پڑھ کر سنائیں۔
انصار عباسی نے وضاحت دی کہ بیان حلفی کی خبر انہوں نے کی اور پیشہ وارانہ تقاضے پورے کیے ہیں۔ ’یہ بیان حلفی میرا نہیں ہے، سپریم ایپلیٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کا ہے۔ میں صحافی ہوں میرا کام پیغام پہنچانا ہے۔ میں نے بیان حلفی دینے والے رانا شمیم سے اس بات کی تصدیق بھی کی۔‘
اس پر چیف جسٹس نے ان کی بات ٹوکتے ہوئے کہا کہ آپ پیغام رساں نہیں ہیں۔ انہوں نے پھر دا نیوز ادارے کے سربراہ میر شکیل سے کہا، ’میر شکیل الرحمٰن صاحب، آپ بتائیں برطانیہ میں دا گارڈین اس طرح کی خبر چھاپ سکتا ہے؟‘
اس پر انصار عباسی نے عدالت سے کہا، ’یہ میری سٹوری ہے، اگر آپ نے کوئی کارروائی کرنی ہے تو میرے خلاف کریں۔ ایڈیٹر اور ایڈیٹر ان چیف کا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں ہے۔ میں نے یہ عدالت کی عزت کے لیے کیا ہے۔ میں نے تو اپنی سٹوری میں ہائی کورٹ کے جج کا نام بھی نہیں لکھا۔‘
انصار عباسی نے مزید کہا کہ ایک سابق چیف جج نے ایک سابق چیف جسٹس پاکستان پر الزام لگایا ہے۔
جب انصار عباسی نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا نام لینے کی کوشش کی تو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں روک دیا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا، ’آپ اور رانا شمیم ثبوت لائیں۔ یہ الزم اس کورٹ کے خلاف لگایا گیا ہے۔ الزام لگایا گیا کہ یہ ہائی کورٹ ہدایات لیتی ہے۔ اس عدالت کے وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ مسلسل یہ بات کی جا رہی ہے کہ کہا گیا انہیں (نواز شریف اور مریم نواز کو) الیکشن سے پہلے نہ چھوڑیں۔ ’کم از کم آپ ہمارے رجسٹرار سے پوچھ لیتے۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا چونکہ یہ بیان حلفی کسی جوڈیشل فورم کے سامنے پیش نہیں ہوا اور نہ ریکارڈ کا حصہ ہے اس لیے ہم اس کو ’جعلی‘ ہی سمجھیں گے۔ انہوں نے کہا یہ عدالت آپ کے سامنے جوابدہ ہے لیکن الزام تراشی کی اجازت نہیں دیں گے۔
’فیصلے کے وقت میں اور جسٹس عامر فاروق چھٹی پر تھے‘
چیف جسٹس ہر سطر پڑھنے کے بعد انصار عباسی کو روکتے رہے اور سوال اُٹھاتے رہے اور وضاحت طلب کرتے رہے۔
چیف جسٹس نے خبر کا پہلا پیراگراف سننے کے بعد کہا کہ کیا اس عدالت کے ججز کسی سے ہدایات لیتے ہیں؟ یہ بیان حلفی کسی جوڈیشل ریکارڈر کا حصہ نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے انصار عباسی سے پوچھا کہ آپ نے اس بات کی تحقیق کی کہ بیان حلفی لندن میں نوٹرائزڈ کیوں کرایا گیا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا، ’آپ تحقیقاتی صحافی ہیں، آپ کے لیے احترام ہے لیکن آپ نے پتہ کیا کہ ایون فیلڈ کا فیصلہ کب آیا؟‘
چیف جسٹس نےمزید کہا کہ چھ جولائی کو فیصلہ آیا اور 16 جولائی کو اپیلیں دائر ہوئیں۔ ’میں اور جسٹس عامر فاروق اس وقت چھٹیوں پر بیرون ملک تھے، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ابتدائی سماعت کی تھی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ درخواستوں کی اپیلوں پر ملک کے مایہ ناز وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔ ان کے ساتھ بیرسٹر عائشہ حامد اور امجد پرویز ایڈووکیٹ سمیت دیگر وکلا 17 جولائی کو عدالت میں پیش ہوئے۔ وکلا کی درخواست پر چھٹیوں کے باوجود اپیلوں کو جلد سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ خبر لکھنے سے پہلے کیا آپ نے وکلا سے پوچھا کہ انہوں نے 25 جولائی سے پہلے سماعت کی درخواست کی ہو اور عدالت نے انکار کیا ہو؟ یا پھر جب عدالت نے 21 جولائی کی تاریخ دی تو انہوں نے کوئی اعتراض کیا؟ انہوں نے مزید پوچھا کہ کیا آپ نے رجسٹرار ہائی کورٹ سے پوچھا کہ کونسا کیس کس نے سُنا تھا؟
چیف جسٹس نے کہا، ’آپ نے خبر میں جج کا نام نہیں لکھا جس کا مطلب ہے آپ نے پورے ہائی کورٹ پر الزام لگا دیا ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کا اس کورٹ پر اعتماد تباہ کرنے کے لیے حقائق کو نظرانداز کر کےسیکنڈل چھاپا گیا۔ ’میرے سامنے اگر کوئی چیف جسٹس ایسی کوئی بات کرے تو میں تحریری طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کو آگاہ کروں گا۔ چیف جسٹس کے سامنے کوئی جرم کرے اور وہ تین سال خاموش رہے؟‘
انصار عباسی نے بیچ میں بولنے کی کوشش کی لیکن چیف جسٹس نے کہا، ’آپ نے جو نقصان پہنچانا تھا وہ پہنچا دیا، اب آپ اور کیا کہنا چاہتے ہیں؟‘
’ایک اور نوٹس‘
رانا شمیم کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے تو عدالت نے استفسار کیا کہ رانا شمیم خود کیوں پیش نہیں ہوئے؟ وکیل نے جواب دیا کہ رات ہی عارف والا سے پہنچے ہیں، ان کی طبیعت خراب ہے۔ ان کے بھائی کی وفات ہوئی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ کہا، ’ایک اور نوٹس بھی جاری ہونا چاہیے، فیصل واؤڈا نے رانا شمیم کے بارے میں اول فُول بکی ہے۔‘
عدالت نے کہا کہ آپ اس حوالے سے الگ درخواست دے سکتے ہیں، اس کیس کے ساتھ اسے ملایا نہیں جائے گا۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید بھی عدالت میں حاضر تھے۔ چیف جسٹس نے اُن سے پوچھا کہ اگر بیان حلفی جھوٹا ثابت ہوا تو اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کو جواب دیا کہ رانا شمیم کے بھائی کی وفات چھ نومبر کو ہوئی اور لندن جا کر 10 نومبر کو یہ بیان حلفی دیا۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا، ’اُن کے پاس اتنا وقت تھا کہ بیان حلفی دے دیا لیکن عدالت نہیں آسکے۔ اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ بیان حلفی کی ٹائمنگ بھی بہت اہم ہے۔ گذشتہ روز صبح سے شام تک ٹی وی چینلز پر ایک ہی موضوع رہا ہے۔
سماعت کے بعد جج رانا شمیم کے صاحبزادے رانا محمد شمیم نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’رانا محمد شمیم کا بیٹا بھی ہوں اور اب خوش قسمتی کی بات ہے کہ ان کا وکیل بھی ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ اس معاملے کی انکوائری ہونی چاہیے اور سپریم جوڈیشل کونسل میں جانا چاہیے۔ ’سپریم جوڈیشل کونسل میں شہادتیں ریکارڈ ہوں، جو حق پر ہے وہ سرخرو ہو جائے گا۔ میرے والد کا موقف یہ ہے کہ وہ اپنے بیان حلفی پر قائم ہیں۔‘
سماعت ملتوی
عدالت نے 40 منٹ تک کیس کی سماعت کرنے کے بعد اسے 26 نومبر تک ملتوی کر دیا۔ جب کہ تمام فریقین کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کرتے ہوئے سات روز کے اندر تحریری جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ 26 نومبر کو سابق جج رانا شمیم اور دیگر فریقین ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔
15 نومبر کو جنگ اخبار میں شائع خبر کے مطابق ’گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا ایم شمیم نے اپنے مصدقہ حلف نامے میں کہا ہے کہ وہ اس واقعے کے گواہ تھے جب اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو حکم دیا تھا کہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔‘
سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم نے یہ بیان اوتھ کمشنر کے روبرو 10 نومبر 2021 کو دیا۔
یہ خبر شائع ہونے کے بعد حکومتی حلقوں کی جانب سے بھی ردعمل سامنے آیا جب کہ سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے خبر کی تردید کی اور اسے اپنے خلاف سازش قرار دیا۔
دوسری جانب رانا شمیم نے کہا کہ وہ اپنے بیان حلفی پر قائم ہیں، جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاملے پر نوٹس لے لیا تھا۔
سماعت سے قبل جب میر شکیل الرحمٰن کمرہ عدالت کے باہر کھڑے تھے تو ایک صحافی نے اُن سے سوال کیا کہ کیا آپ اپنے رپورٹر کی خبر کے ساتھ کھڑے ہیں؟ میر شکیل بس مسکراتے رہے لیکن جواب نہیں دیا۔