گلوبل وارمنگ کے متعلق پیرس معاہدے میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے ممالک کے پاس 2022 کے آخر تک کا وقت ہے۔ لیکن کون دیکھے گا کہ ان کے وعدے واقعی پورے ہوئے ہیں یا نہیں؟
سوال اتنا حساس ہے کہ فی الحال اس کا جواب یہ ہے کہ۔۔۔ ممالک خود۔
اگرچہ ممالک نے ایک عالمی ہدف پر اتفاق کیا ہے جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں کے انتہائی تباہ کن اثرات سے بچنا ہے لیکن جلنے والے ایندھن اور دیگر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جبکہ انہیں کم ہونا چاہیے تھا۔
اور کوئی باضابطہ تنظیم موجود نہیں ہے جسے یہ یقینی بنانے کا کام سونپا گیا ہو کہ ممالک انفرادی طور پر درست سمت میں جا رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والی ماہر موسمیات کورین لی کوئر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اس کو جانچ کرنے کے لیے کوئی پولیس نہیں اور یہ اس عمل کی کمزوری ہے۔‘
تقریبا 200 ممالک نے 2015 میں پیرس کے تاریخی معاہدے پر دستخط کیے تھے اور گلوبل وارمنگ کو کم کرکے ترجیحا اسے 1.5 سیلسیس تک محدود کرنے کا عہد کیا تھا۔
نومبر 2021 میں گلاسگو میں کوپ26 کلائمیٹ سمٹ میں ممالک نے تمام حکومتوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ 2022 کے آخر تک اپنے اخراج کے منصوبوں کو پیرس معاہدے کے مطابق بنائیں۔
لیکن ہر ملک اپنے آب و ہوا سے متعلق کیے گئے کام کو مؤثر طور پرخود چیک کرے گا۔
لی کوئر نے کہا: ’اس عمل کا مطلب ہے کہ ممالک اس رفتار کے ساتھ آگے بڑھیں گے جو ان کے سیاسی نظام سے مسابقت رکھتا ہو۔‘
اب اس وجہ سے اخراج کو زیادہ تیزی سے کم نہیں کیا جاسکا۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی کے ادارے کا اندازہ ہے کہ ممالک کا 2030 تک اخراج میں کمی کا منصوبہ عالمی سطح پر درجہ حرارت کو2.7 سینٹی گریڈ کی تباہ کن حد تک لے جائے گا۔
اقوام متحدہ کے ماحولیات کے پروگرام (یو این ای پی) کا ایک علیحدہ سالانہ تجزیہ اس بارے میں قدرے جامع تفصیل فراہم کرتا ہے جس میں آب و ہوا کے متعلق وعدوں اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں حقیقی کمی کے درمیان فرق کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اس میں جی20 کے امیر ممالک پر ایک خاص توجہ دی گئی ہے۔ جو تقریبا 80 فیصد اخراج کے ذمہ دار ہیں۔
یو این ای پی کی رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک این اولہوف نے کہا کہ ہم سرے عام نام نہیں لیتے لیکن ہم جی 20 کے ارکان کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو یقینی طور پر آسٹریلیا اور میکسیکو کی طرح درست راستے پر نہیں ہیں۔
درحقیقت ماہرین کو یہ بھی شک ہے کہ ممالک کسی بھی باضابطہ بیرونی جانچ پڑتال پر اتفاق کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحقیقی گروپ کلائمٹ اینالیٹکس کے بل ہیر نے کہا کہ ’ہم نے گلاسگو میں بہت واضح طور پر سنا ہے کہ امریکہ جیسے ممالک کہتے ہیں وہ اکیلے ہی اس بات کا تعین کریں گے کہ ان کے ملک کے لیے 1.5 سی تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے اور امریکہ کسی بھی طرح اکیلا نہیں ہے۔‘
یورپی کمیشن کے نائب صدر فرانس ٹمرمینز نے گلاسگو میں کوپ کانفرنس کے دوران اے ایف پی کو بتایا کہ ’میرے خیال میں اس معاملے کی ذمہ داری یورپی یونین پر نہیں ہے کیونکہ ہم پیرس معاہدے میں رہنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ ہم اسے حقائق کے ساتھ ثابت کر سکتے ہیں۔‘
کلائمٹ ایکشن ٹریکر(سی اے ٹی) جیسے چند آزاد تجزیاتی ادارے ہیں جو ممالک کے 1.5 سی، 2 سی، 3 سی یا اس سے بھی بدتر کی طرف بڑھنے کا حساب لگاتے ہیں۔
سی اے ٹی کے شراکت دار تنظیم کے رکن ہیر نے کہا کہ 2022 میں آخری تاریخ قریب آتے ہی سی اے ٹی اور دیگر تجزیات ’بہت بحث اور اختلاف‘ پیدا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ آگے بڑھنے کے لیے کچھ ممالک کے نام لینے کی ضرورت ہے۔ نام سامنے آنے کا واضح خطرہ کچھ ممالک کو اس بات پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد کرتا ہے کہ انہیں صحیح کام کرنے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے۔
آئی ڈی ڈی آر آئی نامی تھنک ٹینک سے تعلق رکھنے والی ویلجو نے کہا کہ انتہائی خواہش مند ممالک کو بھی لوگوں کو باور کرانے کے لیے ’اپنے دلائل بہتر‘ کرنے ہوں گے کہ ان کے اعداد وشمار بہتر ہوئے ہیں۔
سول سوسائٹی، ذرائع ابلاغ اور یہاں تک کہ دیگر ممالک بھی حکومتوں کو مزید کام کرنے پر مجبور کریں گے۔
ایک مغربی سفارت کار نے کہا کہ ’ساتھیوں کا دباؤ کام کرتا ہے۔ جو ممالک پیرس معاہدے کے مطابق نہیں ہیں ان پر تنقید کا دباؤ ہوگا۔‘
یہاں تک کہ جو ممالک ایندھن کے اخراج میں کمی کے سب سے زیادہ خواہشمند ہیں وہ بھی اپنے باتوں کا مزید سہارہ نہیں لے سکیں گے۔
اولہوف نے کہا کہ امیر ممالک کو ممکنہ طور پر ’ایندھن کے تاریخی اخراج کے بوجھ اور انصاف اور مساوات‘ کے متعلق سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پیرس معاہدہ قومی حالات کے مطابق ’مشترکہ لیکن امتیازی ذمہ داریوں‘ کے اصولوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
چنانچہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گلوبل وارمنگ کے زیادہ تر ذمہ دار دولت مند ممالک ہیں اور اس لیے انہیں غریب ممالک کی نسبت زیادہ فرض شناسی سے کام کرنا چاہیے۔
اولہوف نے کہا کہ لیکن بنیادی طور پر کلیدی پیغام ایک ہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر وہ گلوبل وارمنگ کو روکنے کی امید رکھتے ہیں تو تمام ممالک کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم مزید تیزی سے کچھ کر سکتے ہیں۔