45 سالہ عبدالقیوم شیرانی کا تعلق بلوچستان کے قدرتی جنگلات سے مالامال مگر پسماندہ ضلع شیرانی کے علاقے کپیپ سے ہے۔
انہوں نے اپنے علاقے کے قدرتی جنگل میں 12 ایکڑ پر زیتون کے درختوں میں ہسپانوی اوراطالوی نسل کے زیتون کی پیوندکاری یا گرافٹنگ کی ہے، جس سے ان کے بقول ہرسال تین سے چارہزار لیٹر خالص زیتون کا تیل حاصل کیا جاتا ہے۔
عبدالقیوم کے مطابق زیتون کی فصل عموماً اکتوبر کے مہینے میں تیار ہوتی ہے۔ زیتون کے دانوں کو درختوں سے اتار کر تیل نکالا جاتا ہے اور ژوب شہر لاکر یہاں سے ملک کے دیگر حصوں اور خلیجی ممالک میں بھیجا جاتا ہے۔
محکمہ جنگلات کے اعدادوشمار کے مطابق ضلع شیرانی میں ایک لاکھ دوہزار ایکڑ پر پھیلے زیتون کے قدرتی جنگلات ہیں، جن میں سے 15 ہزار ایکڑ محکمہ جنگلات جب کہ 87 ہزار ایکڑ مقامی لوگوں کی ملکیت ہیں۔
ماضی میں یہ جنگلات انتہائی بے دردی سے کاٹے گئے، انہیں ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کے لیے سب سے موزوں لکڑی سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ژوب اور شیرانی کے نوجوانوں نے ’اشر‘ کے نام سے ایک تحریک کا آغاز کیا ہے، جو شجرکاری سمیت زیتون کے جنگلات کے بچاؤ کے لیے کوشاں ہیں۔
اس وقت ایک من (40 کلوگرام) جنگلی زیتون لکڑی کی قیمت 12 سو روپے ہے۔ تاہم ضلعی انتظامیہ اور محکمہ جنگلات کی جانب سے زیتون کی لکڑی کی کٹائی اور نقل و حمل پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ علاقہ سرد اور پہاڑی ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگ ایندھن کے طور پر لکڑی کا استعمال کرتے ہیں۔
علاقے کے لوگوں نے جنگلات کی اہمیت کے پیش نظر لوگوں میں شعوراجاگر کرنے کے لیے کافی تگ و دو کی لیکن ان کی کوششیں بھی بارآور ثابت نہیں ہوئیں کیونکہ ژوب شیرانی سمیت اس پورے علاقے میں گیس یا ایندھن کے لیے کوئی متبادل نظام موجود نہیں۔ ژوب کی کثیرآبادی کا انحصار بھی ژوب سے متصل شیرانی کے جنگلات پر ہے، جس کی سرحدیں ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان سے بھی ملتی ہیں۔
عبدالقیوم نے بتایا کہ وہ نہ صرف اپنے درختوں بلکہ پورے علاقے کے جنگل کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ پیوندکاری کیے گئے درختوں کو خشک شاخوں اور تار کی مدد سے محفوظ کیا گیا ہے تاکہ مویشی درختوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔
درختوں کو پانی دینے کے لیے محکمہ زراعت کی ذیلی شاخ واٹرمینجمنٹ کی مدد سے ڈرپ ایری گیشن یا قطراتی نظام لگایا گیا ہے۔
شیرانی کے علاقے کپیپ کلی غبرگئی میں 12 ایکڑزمین پر زیتون کے قدرتی جنگل میں ڈبلیوڈبلیو ایف اور یوکے ایڈ کے فنڈ سے پیوندکاری کی گئی جب کہ یواین ڈی پی اور محکمہ زراعت واٹرمینجمنٹ کے تعاون سے درختوں کو سیراب کرنے کے لیے قطراتی نظام یا ڈرپ ایری گیشن لگایا گیا ہے۔
اکتوبر کے مہینے میں زیتون کے پکے دانے درختوں سے اتار کر ان سے تیل نکالا جاتا ہے اور ملک کے مختلف حصوں اور خلیجی ملکوں میں بھیجا جاتا ہے۔ یہ علاقہ مون سون کی رینج میں واقعے ہونے کی وجہ سے پیداوار کم ہے، تاہم سالانہ تین سے چار ہزار لیٹر تیل حاصل کیا جاتا ہے۔
پیوندکاری کیسے ہوتی ہے؟
پیوندکاری کے طریقہ کار کے بارے میں عبدالقیوم نے بتایا کہ جنگلی زیتون کے درخت کی شاخوں کو احتیاط سے کاٹ کر ان کے ساتھ قلم جوڑی جاتی ہے اور دونوں شاخوں کو مٹی کی مدد سے جوڑ کر پلاسٹک سے مضبوطی سے باندھ دیا جاتا ہے۔
جنگلی زیتون میں پیوندکاری کے ماہر ڈپٹی ڈائریکٹر ایگری کلچر ریسرچ حبیب اللہ کاکڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’زیتون کے درخت کی عمر 15 سو سے سات ہزار سال ہے۔ تین سے پانچ سال کے عرصے میں زیتون کے درخت کی ٹہنیوں پرکونپلیں پھوٹنا شروع ہوجاتی ہیں اور فصل دینا شروع کردیتی ہے۔ سو کلو جنگلی زیتون سے دس لیٹر تیل نکلتا ہے جب کہ ہسپانوی اور اطالوی ورائٹی سے پیوند کیے گئے زیتون کے سو کلوگرام سے 22 سے 28 لیٹر تیل نکلتا ہے۔ زیتون کی 10، 12 مختلف ورائٹیز ہیں جو ژوب ڈویژن کی آب وہوا کے لحاظ مناسب ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’پیوندکاری عموماً موسم بہار یعنی فروری، مارچ یا مون سون کے موسم یعنی جولائی اگست میں کی جاتی ہے۔ ژوب ڈویژن میں لاکھوں جنگلی زیتون کے درخت موجود ہیں۔ اگران درختوں میں پیوندکاری کی جائے، تو یہ ڈھائی تین سال میں بمپر فروٹ دیں گے۔ ہر درخت سے 20 سے 25 لیٹرز تیل نکلے گا، جس کی مارکیٹ میں فی لیٹر قیمت پچیس سو سے تین ہزار روپے ہے۔ ہر درخت سے 75 ہزار روپے آمدنی حاصل کی جاسکتی ہے جس سے نہ صرف معیشت مضبوط ہوگی بلکہ زمینی کٹاؤ کی بھی روک تھام ہوگی اور پہاڑوں کی خوبصورتی بھی بحال رہے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ضلع شیرانی میں بالخصوص جب کہ بلوچستان میں بالعموم پیوندکاری کے حوالے سے سیکرٹری جنگلات دوستین جمالدینی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت جنگلی زیتون میں پیوندکاری پر کام تو کررہی ہے اور پہلے بھی کرچکی ہے، تاہم اس حوالے سے احتیاط بھی برتنی پڑتی ہے کہ پیوند یا قلم جنگلی درخت سے مطابقت رکھتا ہو۔
’بلوچستان میں پیوندکاری پہلے بھی کی جاچکی ہے تاہم ماہرین سے مشاورت کی جائے گی کہ کیا پیوندکاری کی گئی ورائٹی ہماری جنگلی زیتون کے لیے مناسب بھی ہے یا نہیں۔ اگرچہ یہ ٹرائل کی بنیاد پر ہے تاہم حکومت اس معاملے میں نہایت احتیاط سے کام لے رہی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بنے۔ صوبے میں جاری زیتون کشید اور زراعت و جنگلات کے مختلف منصوبوں میں پیوندکاری کا کام شامل ہے۔‘
ضلع شیرانی سے متصل ژوب میں بھی قدرتی زیتون کے جنگلات موجود ہیں تاہم مناسب دیکھ بھال نہ ہونے، حکومتی عدم توجہی، وسائل کی کمی اور لوگوں کی بے حسی کے باعث یہ جنگلات روزبروز سکڑتے جارہے ہیں۔