مالیاتی ماہرین گذشتہ پانچ مہینے سے بیرون ملک خاص طور پر متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے آنے والی ترسیلات زر میں کمی کا ذمہ دار افغان بحران کو سمجھتے ہیں۔
عالمی وبا کرونا (کورونا) کے دوران لاک ڈاؤن کی سختیوں اور پاکستان سے بڑی تعداد میں ورکرز کے باہر جانے کے بعد گذشتہ سال سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے وطن بھیجی جانے والی رقوم یا ترسیلات زر (Remittances) میں اضافہ ہوا، جو پاکستان کے مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ چار مہینوں سے کم ہو رہا ہے۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’کرونا وبا سے پہلے بیرون ملک کام کرنے والوں کی بڑی تعداد اپنے ساتھ ڈالر لاتی تھی، مگر لاک ڈاؤن کی سختیوں کے بعد جب انٹرنیشنل فلائٹس بند ہوگئیں تو بیرون ملک سے ڈالر بینکوں کے ذریعے آنے لگے، جس سے ورکرز ریمیٹنسز میں اضافہ ہوا۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’اس کے علاوہ بیرون ملک دو سے تین فیصد ایکسچینج فیس کاٹی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں بیرون ممالک کی نسبت ڈالر کا ریٹ بہتر تھا تو لوگ ڈالر لاتے تھے، مگر افغان بحران کے بعد گذشتہ چار مہینے سے خاص طور پر عرب امارات سے ورکرز ریمیٹنسز میں کمی دیکھی جارہی ہے۔‘
ملک بوستان کے مطابق: ’افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد وہاں ڈالر اکاؤنٹ منجمد ہیں، لہذا افغانستان کے لوگ پاکستانی برآمد کنندگان کو دبئی سے ڈالر خرید کر ادائیگی کر رہے ہیں اور اس لیے وہ پاکستان کی اوپن مارکیٹ کی نسبت زیادہ ریٹ دے رہے ہیں۔‘
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران سب سے زیادہ آٹھ ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھیجیں، جو گذشتہ سال اسی مدت کے مقابلے میں 12.5 فیصد زیادہ تھیں، تاہم دبئی سے آنے والی ترسیلات زر میں جولائی 2021 سے مسلسل کمی آئی ہے۔
سٹیٹ بینک کے مطابق جولائی 2021 میں دبئی سے 53 کروڑ چھ لاکھ ڈالر ترسیلات زر آئیں، جو اگست میں کم ہوکر 51 کروڑ 23 لاکھ ڈالر ہوگئیں۔ اسی طرح ستمبر میں 50 کروڑ 20 لاکھ ڈالر جبکہ اکتوبر میں 45 کروڑ 59 لاکھ ڈالر اور نومبر میں بتدریج کم ہوکر 45 کروڑ 25 لاکھ ڈالر ہوگئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا: ’موجودہ حکومت کے دور میں پاکستان سے 11 لاکھ ورکرز بیرون ملک کام کرنے گئے، مگر افغانستان بحران کے بعد اب عرب امارات سے ترسیلات زر میں کمی آرہی ہے۔‘
دوسری جانب ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’پاکستان میں ڈالر کی قیمت کی نسبت دبئی میں حوالہ کا کام کرنے والے افراد ڈالر کی قیمت تین سے چار فیصد زائد دے رہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اگر پاکستان میں انٹر بینک مارکیٹ میں قیمت 181 روپے اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 178 روپے ہے تو دبئی میں حوالہ کا کام کرنے والے187 روپے دے رہے ہیں، لہذا اس لیے لوگ بینک کی بجائے حوالہ سے پیسے بھیج رہے ہیں۔‘
واضح رہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کے انخلا کے بعد پاکستان سے ڈالرز کی افغانستان سمگلنگ کی اطلاعات کے بعد پاکستان کے مرکزی بینک نے اکتوبر میں ڈالرز کی ترسیل پر پابندی عائد کرتے ہوئے افغانستان جانے والے افراد پر پاکستان سے ڈالرز لے جانے کی حد مقرر کردی تھی۔ اس پابندی کے تحت افغانستان جانے والے افراد سفر میں صرف ایک ہزار امریکی ڈالر اور سال میں ایک فرد چھہ ہزار ڈالر ہی لے جاسکتا ہے۔
اس سلسلے میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کا موقف جاننے کے لیے ایک ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ مرکزی بینک کی جانب سے حالیہ دنوں جاری کی گئی پریس ریلیز کو بینک کے موقف کے طور پر شائع کیا جاسکتا ہے جس کے مطابق ’نومبر 2021 کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے وطن بھیجی جانے والی رقوم یا کُل ترسیلات زر 2.4 ارب روپے ہے جو کہ جون 2020 سے بڑھی ہوئی ترسیلات زر کا تسلسل ہے۔ پاکستان حکومت اور سٹیٹ بینک ترسیلات زر کے معرفت بھیجنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اگر کوئی سوال ہیں تو مجھے لکھ کر بھیجیں، مگر ان کے جوابات دو سے تین دن میں ہی مل سکیں گے، کیونکہ بینک کی جانب سے میڈیا کے سوالات کے جواب دینے کا ایک طریقہ کار ہے، جس کے تحت جواب میں وقت لگ سکتا ہے۔‘