پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے بدھ کو کمیٹی روم بند ہونے کی وجہ سے احتجاجاً سڑک پر بغیر کارروائی کے ٹوکن اجلاس منعقد کیا۔
مذکورہ کمیٹی نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار، سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم اور صحافی انصار عباسی کو طلب کر رکھا تھا۔
تاہم سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور سابق جج گلگت بلتستان رانا شمیم پیش نہیں ہوئے جس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ چونکہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اس لیے وہ پیش نہیں ہو سکتے تھے۔
یاد رہے کہ صحافی انصار عباسی نے انگریزی روزنامہ دی نیوز میں اپنی ایک خبر میں رانا شمیم کے لندن میں نوٹورائز ہونے والے ایک بیان حلفی کا انکشاف کیا تھا، جس میں سابق چیف جج نے جسٹس (ر) ثاقب نثار سے متعلق سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو انتخابات سے قبل رہا نہ کرنے کی ہدایات جاری کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
کمیٹی کے چیئرمین اور مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف نے کہا کہ وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات نے اجلاس نہیں ہونے دیا اور اسی وجہ سے کمیٹی روم کو بند رکھا گیا تھا۔
کمیٹی روم بند ہونے کے باعث قائمہ کمیٹی کے اراکین پاکستان ٹیلی ویژن کے باہر سڑک پر اکٹھے ہوئے اور ٹوکن اجلاس کیا، جس میں کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
قائمہ کمیٹی کے ٹوکن اجلاس میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے محض نصف درجن اراکین موجود تھے، جبکہ قومی اسمبلی کی اس کمیٹی کے اراکین کی کل تعداد 21 ہے۔
پاکستان ٹیلی ویژن کی عمارت کے باہر سڑک پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میاں جاوید لطیف نے کہا کہ کمیٹی روم بند ہونے کے باعث اجلاس سڑک پر منعقد کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے تحقیقات کی غرض سے صحافی سمیت سابق چیف جج اور سابق چیف جسٹس کو طلب کیا تھا، تاکہ عدلیہ کے ادارے سے متعلق جو باتیں کی جا رہی ہیں ان کی حقیقت سامنے آ سکے۔
انہوں نے کہا کہ 21 دسمبر کو وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کو مذکورہ تین اشخاص کی طلبی سے متعلق مطلع کیا گیا تھا، اور سوال نامے بھی بھیجے گئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’پہلے اجلاس قومی اسمبلی عمارت کے بجائے پاکستان ٹیلی ویژن کے کمیٹی روم منتقل کیا گیا، اور آج اسے بھی بند رکھا گیا کہ اجلاس ہی نہ ہو سکے۔‘
کمیٹی چیئرمین کا کہنا تھا کہ ’اس وقت وفاقی وزیر فواد چوہدری یا وزارت کی طرف سے کوئی اعتراض موصول نہیں ہوا، لیکن تین روز قبل وزیر صاحب نے کہا کہ معاملہ سبجوڈس ہے۔‘
تاہم کمیٹی کے ایک رکن سعد وسیم کے مطابق وفاقی وزارت اطلاعات نے بدھ کے لیے طلب کیے گئے کمیٹی اجلاس کا نوٹیفیکیشن پہلے ہی واپس لے لیا تھا۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی کی سرکاری ویب سائٹ پر بھی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے بدھ (29 دسمبر) کو کسی اجلاس کا نوٹس موجود نہیں ہے۔
اس سلسلے میں ان کا موقف جاننے کے لیے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
میاں جاوید لطیف نے مزید کہا کہ جاوید ہاشمی اس سے قبل قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے کہا تھا کہ ’نواز شریف کی حکومت ختم کرنے کا انتظام ہو گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی اب جاوید ہاشمی کو بھی طلب کرے گی تاکہ ان کے اس دعوے کی بھی حقیقت قوم کے سامنے آ سکے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ اسمبلی قوانین کے تحت کوئی بھی قائمہ کمیٹی کسی بھی فرد کو شہادت کے لیے یا دستاویزات اجلاس میں طلب کرنے کی مختار ہے۔
میاں جاوید لطیف نے مزید کہا کہ پاکستان میں صرف سیاستدان ایسے لوگ ہیں جو کہیں بھی طلب کرنے پر پہنچ جاتے ہیں اور ایسا مارشل لاؤں کے دوران بھی ہوتا رہا ہے۔
’یہ اس لیے ہے کہ ہم سیاستدان اداروں اور قانون کا احترام کرتے ہیں، لیکن دوسرے لوگ پارلیمان کی کمیٹی کے طلب کرنے پر نہیں آتے۔‘