’ہم کئی دہائیوں سے اس بستی میں رہ رہے ہیں۔ ہمارے باپ دادا بھی یہیں رہتے تھے۔ہم زیادہ تر ناخواندہ ہیں اور بھیک مانگتے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے پڑھیں اور ملازمت کریں تاکہ انہیں بھیک مانگنے سے چھٹکارا مل سکے۔‘
یہ کہنا تھا خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسمعیل خان میں دریائے سندھ کے کنارے آباد خانہ بدوشوں کی بستی میں رہنے والے فیض محمد کا، جن کو اپنے بچوں کی تعلیم کی فکر کھا رہی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ان کی خواتین اور بچے زیادہ تر بازاروں میں بھیک مانگتے ہیں جس سے گھر کا چولہا جلتا ہے۔
’ہماری زیادہ آبادی ناخواندہ ہے جس کی ایک وجہ تعلیم کی سہولیات نہ ہونا ہے۔‘
تاہم شمالی وزیرستان کے محمد محسود نے بستی میں رہنے والے بچوں کی مفت تعلیم کے لیے قریب ہی ایک سکول کی بنیاد رکھی ہے۔
محمد خان ٹرسٹ کے نام سے بنے سکول میں تین اساتذہ پڑھاتے ہیں جبکہ یہاں فرنیچر اور دیگر ضروری چیزیں موجود ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد محسود نے بتایا کہ وسائل کی کمی کے باوجود سکول میں تقریباً 64 بچے پڑھ رہے ہیں جن کو کتابیں اور تعلیم مفت ملتی ہے۔
’ان بچوں کے والدین معاشی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور ان کے بچے بھیک مانگتے ہیں۔ہم انہیں تعلیم دلانے کے ساتھ ساتھ تربیت بھی دیتے ہیں تاکہ یہ معاشرے کے کار آمد لوگ بن سکیں۔‘
خانہ بدوشوں کی بستی کے ایک سربراہ فیض محمد کے مطابق اس سکول سے فائدہ ضرور ہے البتہ وہ چاہتے ہیں کہ بستی کے قریب کوئی سرکاری سکول ضرور کھلنا چاہیے۔