بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش میں اردو ادب کے شیدائیوں کے احتجاج کے بعد ’یو پی ہائر ایجوکیشن سروس کمیشن‘ نے اپنی ویب سائٹ پر انیسویں صدی کے مشہور شاعر سید اکبر حسین رضوی کا اصل تخلص یا قلمی نام ’اکبر الہ آبادی‘ بحال کر دیا ہے۔
گذشتہ روز کمیشن کی ویب سائٹ پر دیکھا گیا تھا کہ اکبر الہ آبادی کا تخلص تبدیل کرکے ’اکبر پریاگ راجی‘ کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ سنہ 2018 میں اتر پردیش میں سخت گیر ہندو نظریاتی موقف رکھنے والے بی جے پی رہنما یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے تاریخی شہر الہ آباد کا نام بدل کر ’پریاگ راج‘ رکھا تھا، لہذا اکبر الہ آبادی کے تخلص میں تبدیلی کو اسی سلسلے کی کڑی سمجھا گیا۔
اکبر الہ آبادی کے تخلص میں تبدیلی پر اتر پردیش حکومت پر سوشل میڈیا پر سخت تنقید کی گئی تو یو پی ہائر ایجوکیشن سروس کمیشن نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ ’یہ ہیکرز کی کارستانی تھی۔‘
کمیشن کے ڈپٹی سیکرٹری شیو جی مالویہ کا اپنے بیان میں کہنا تھا: ’ہماری ویب سائٹ کو ہیک کیا گیا تھا۔ ہم نے سائبر سیل سے کہا ہے کہ اس کی تحقیقات کرے۔ جن لوگوں نے بھی یہ حرکت انجام دی ہے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘
اس ویب سائٹ پر اکبر الہ آبادی کے علاوہ الہ آباد سے تعلق رکھنے والی دو دیگر بڑی ادبی شخصیات تیغ الہ آبادی (مصطفیٰ زیدی) اور راشد الہ آبادی کے قلمی ناموں یا تخلص میں ’الہ آبادی‘ کی جگہ ’پریاگ راجی‘ لکھا گیا تھا۔
یو پی ہائر ایجوکیشن سروس کمیشن کا کہنا ہے کہ ’ہیکرز کی جانب سے اکبر الہ آبادی سمیت تین ادبی شخصیات کے قلمی ناموں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی اور ویب سائٹ پر اب تینوں کے ناموں کو درست کیا گیا ہے۔‘
اتر پردیش کے حالات و واقعات پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ اکبر الہ آبادی کے تخلص میں تبدیلی بادی النظر میں ہیکرز کی کارستانی نظر نہیں آتی ہے۔
مبصرین کے مطابق: ’یہ یو پی ہائر ایجوکیشن سروس کمیشن میں کسی کی شرارت ہو سکتی ہے یا یہ کارنامہ کمپیوٹر پر فائنڈ اینڈ ریپلیس کے آپشنز کا الہ آباد کو پریاگ راج سے بدلنے کی کارروائی کے دوران انجام پایا ہے۔‘
’ناموں کی تبدیلی انتہائی احمقانہ‘
الہ آباد یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق صدر اور نامور مصنف پروفیسر علی احمد فاطمی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اتر پردیش میں جاری ناموں کی تبدیلی انتہائی احمقانہ عمل ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’یہاں کی متعصب حکومت نے پہلے ہمارے اس تاریخی شہر (الہ آباد) کا نام بدل دیا۔ پھر کچھ دن پہلے ہائر ایجوکیشن سروس کمیشن کی ویب سائٹ پر اکبر الہ آبادی کی جگہ اکبر پریاگ راجی لکھ دیا۔‘
’لوگ اس بار خاموش نہیں رہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ہندی زبان کے ادیبوں اور شاعروں نے احتجاج کیا۔ یہاں تک کہ ہندی اخبارات میں بھی ناراضگی دیکھنے کو ملی۔ ان پر دباؤ پڑا تو انہیں مجبوراً پریاگ راجی کی جگہ الہ آبادی لکھنا پڑا۔‘
پروفیسر علی احمد فاطمی کے مطابق: ’جب ایک سال پہلے الہ آباد یونیورسٹی کا نام بھی بدلنے کی کوشش ہوئی تو اس یونیورسٹی کے ہندو پروفیسرز نے زبردست احتجاج کیا۔ یہ سلور لائننگ ہے۔ اس سے یہ بات صاف ہوتی ہے کہ سبھی ہندو فرقہ پرست نہیں ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اتر پردیش اور بہار جیسی غریب ریاستوں میں ناموں کی تبدیل ایک زہریلا سیاسی کھیل ہے۔
’تاریخی مغل سرائے ریلوے سٹیشن کا نام تبدیل کرکے پنڈت دین دیال اپادھیائے ریلوے سٹیشن کیا گیا ہے۔ آپ کو کسی جگہ کا نام دین دیال اپادھیائے رکھنا ہے تو کوئی نئی چیز بنا کر اُس کا نام رکھیں۔ نام بدلنے پر کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ یہ بھارت جیسے غریب ملک کے لیے ایک احمقانہ فعل ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول علی احمد فاطمی: ’جب حکمران طبقہ پڑھا لکھا اور دانشور نہیں ہوتا تو ایسی احمقانہ حرکتیں ہوتی ہیں۔ یہاں آرٹ، کلچر اور لٹریچر کے سبھی ادارے مردہ پڑے ہیں۔ اس حکمران ٹولے کو ان اداروں سے کوئی دلچسپی نہیں۔‘
’شاعروں اور ادیبوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے۔ ہم تو پریم چند اور فراق گورکھپوری کو اتنی ہی عزت دیتے ہیں جتنی باقیوں کو دیتے ہیں۔ یہ ناموں کی تبدیلی کا کھیل کسی بھی ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔ کوئی بھی ملک محض نفرت اور دشمنی سے نہیں چل سکتا۔ سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔‘
الہ آباد سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد نہال افروز فی الوقت حیدرآباد دکن کی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں بحیثیت گیسٹ فیکلٹی تعینات ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اکبر الہ آبادی ایک تاریخ کا نام ہے، جن کی ادبی خدمات کو مٹانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
’اکبر الہ آبادی اور ان کی جیسی دوسری شخصیات عالمی شہرت یافتہ ہیں۔ ان کا ادبی کام پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ کوئی کتنا بھی چاہے ان کی خدمات کو مٹا نہیں سکتا۔‘
تاہم ڈاکٹر محمد نہال افروز کا کہنا ہے کہ اکبر الہ آبادی کے شہر الہ آباد میں اردو زبان کا حال بے حال ہے۔
’اردو ہماری دوسری سرکاری زبان ہے لیکن پورے شہر کی بات چھوڑیں مسلم آبادی والے علاقوں میں بھی اردو ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ کہیں اردو میں لکھا ہوا بورڈ ہی نظر نہیں آتا۔ ہم جیسے لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کی ترقی و ترویج کے لیے کام کریں۔‘
’الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق ایڈووکیٹ جنرل ایس ایم اے کاظمی صاحب ہم سے اکثر کہا کرتے تھے کہ تھانوں اور سرکاری دفاتر میں اپنی شکایت لے کر جانا ہو تو اردو میں لے کر جائیں۔ ہم اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھا پا رہے ہیں اور دوسروں پر الزام ڈالتے ہیں۔‘
’دنیا میں بھارت بدنام ہو رہا ہے‘
بھارت کے معروف نیوز پورٹل ’مسلم مرر ڈاٹ کام‘ کے ایڈیٹر سید زبیر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ انہیں اکبر الہ آبادی کے نام میں تبدیلی پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔
’یہ تو بی جے پی والوں کا سیاسی ایجنڈا ہے۔ چوں کہ انتخابات نزدیک آ رہے ہیں لہٰذا ایسی چیزیں دیکھنے کو ملتی رہیں گی۔ ان کے لیے ایسی چیزیں کرکے انتخابات جیتنا ضروری ہے۔‘
سید زبیر احمد کے مطابق: ’ان لوگوں نے الہ آباد شہر اور مغل سرائے ریلوے سٹیشن کا نام تبدیل کیا لیکن کوئی ان جگہوں کو نئے ناموں سے نہیں پکارتا۔ چوں کہ سرکاری طور پر تبدیل کیے گئے ہیں لہٰذا لکھنے میں آتے رہیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ بی جے پی کی ان حرکتوں سے پوری دنیا میں بھارت بدنام ہو رہا ہے اور اس پر ہنسا جاتا ہے۔
’ایسی چھوٹی چھوٹی حرکتیں کی جاتی ہیں جن سے عوام کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا لیکن بھارت کی شبیہ خراب ہو رہی ہے۔ اس ملک کے 135 کروڑ لوگ بدنام ہو رہے ہیں۔ ہم پر ہنسا جاتا ہے۔ سنگیوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے لیکن ان کی حرکتوں کی وجہ سے ملک کے سبھی ایک سو کروڑ ہندو بدنام ہو رہے ہیں۔‘