اسلام آباد سری نگر ہائی وے پر اسامہ ستی کے قتل کو ایک سال کا عرصہ بیت گیا۔ اسامہ ستی کے والد کہتے ہیں ’سال گزر گیا اور ہم ابھی تک انصاف کے منتظر ہیں، اسامہ کی والدہ ابھی تک صدمے سے باہر نہیں نکل سکیں۔‘
قتل میں ملوث پولیس اہلکار ملزمان پر ابھی ٹرائل جاری ہے۔
ندیم ستی انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے، انہوں نے کہا کہ ’ہمارا لخت جگر تو چلا گیا، دعا ہے کسی اور کوایسا صدمہ نہ ملے۔‘
انہوں نے بتایا قتل کے واقعے کے بعد وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی تھی، انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ پولیس اصلاحات بل لایا جائے گا اور اُس بل کا نام اسامہ ستی بل رکھا جائے گا لیکن یہ وعدہ بھی پورا نہ ہوا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ملزمان نے دہشت گردی کی دفعات ختم کرانے کے لیے سپریم کورٹ سے رابطہ کر رکھا ہے اب ہمیں ڈر ہے اگر سپریم کورٹ نے ملزمان کے حق میں فیصلہ کیا تو یہ مقدمہ دوبارہ زیرو پہ چلا جائے گا کیونکہ ابھی یہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں تکمیلی مراحل کی جانب گامزن ہے لیکن اگر سپریم کورٹ نے ملزمان سے دہشت گردی کی دفعات ختم کیں تو مقدمہ سول عدالت میں چلا جائے گا اور ازسرنو شروع ہو گا جس سے انصاف کھٹائی میں پڑ جائے گا۔‘
مقدمے میں پیش رفت کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’ملزمان کی شہادتیں ریکارڈ ہو رہی ہیں، سرکاری اور پرائیورٹ گواہ انتالیس ہیں جن میں سے سات شہادتیں قلمبند ہو چکی ہیں اور مقدمے کی اگلی سماعت چار جنوری کو ہے۔‘
واقعے کا پس منظر
گزشتہ برس یکم اور دو جنوری کی درمیانی شب 22 سالہ اسامہ ندیم ستی اسلام آباد کی سری نگر ہائی وے (سابقہ کشمیر ہائی وے) پر جی 10 کے اشارے سے کچھ میٹر آگے پولیس کی انسداد دہشت گردی فورس کی گولیوں کا شکار ہو کر جان گنوا بیٹھے تھے۔
دستیاب معلومات کے مطابق اسامہ ستی دوست کو ڈراپ کرنے نسٹ یونیورسٹی گئے تھے جو کہ ایچ 13 میں واقع ہے اور ڈراپ کر کے جی 13 میں واقع اپنے گھر رواں دواں تھے کہ گشت پر مامور پولیس اہلکاروں نے ایچ 13 سے نکلتے ہی اُن کی گاڑی کا پیچھا کیا۔ خوف کے باعث اسامہ سری نگر پر جی 13 مڑنے کے بجائے جی ٹین اشارے تک گاڑی دوڑاتے رہے جہاں پہنچ کر پولیس اہلکاروں نے گاڑی پر فائر کھول دیے، بائیس گولیاں چلائی گئیں جن میں نو اسامہ کو لگیں تھیں۔ اسامہ کے والد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’جن اہلکاروں نے اسامہ کو گولیوں کا نشانہ بنایا ان سے ایک روز قبل اسامہ کی معمولی تلخ کلامی بھی ہوئی تھی اور پولیس اہلکاروں نے اسامہ کو دھمکایا تھا۔‘
خیال رہے قتل کے بعد ابتدائی طور پہ پولیس نے اسے ڈکیٹی کی واردات ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی لیکن سوشل میڈیا پر شور اور دباؤ کے باعث معاملہ چھپ نہ سکا اور اسامہ ستی کے والد نے انسداد دہشت گردی کے پانچ اہلکاروں کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرایا۔ ایف آئی آر میں تعزیرات پاکستان دفعہ 302 بھی شامل کی گئی۔ کابینہ کی میٹنگ میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیااور وزیر داخلہ کو ہدایت دی کہ تحقیقات کر کے واقعے کی رپورٹ درج کرائیں جس کے بعد پولیس نے معاملے کو سنجیدہ لیا اور سی ٹی ڈی اہلکاروں کو برطرف کر کے حراست میں لے کر قانونی کارروائی شروع کر دی گئی۔
دوسری جانب ملزمان نے ابتدائی طور پر موقف اپنایا تھا کہ سیکٹر ایچ 13 میں ڈکیٹی کی واردات کی کال آئی تھی اور اسامہ ستی کی گاڑی کو ڈاکوؤں کی گاڑی سمجھ کر فائر کیے گئے کیونکہ گاڑی پولیس کے اشارہ دینے کے باوجود نہیں رکی۔
واقعے کے فوری بعد تین جنوری کو انسداد دہشتگردی ایکٹ کے سیکشن 19 کے تحت چیف کمشنر اسلام آباد نے جے آئی ٹی تشکیل دی جو سات اراکین پر مشتمل تھی۔ آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے بھی ایک ایک نمائندے جے آئی ٹی میں شامل تھے۔ جب کہ ڈی ایس پی رمنا، ڈی ایس پی انویسٹی گیشن اور ایس ایچ او رمنا بھی جے آئی ٹی کا حصہ تھے۔
قتل کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ
کیس کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ تیرہ جنوری کو سامنے آئی رپورٹ کے مطابق ’اسامہ ستّی کا کسی ڈکیتی یا جرم سے کوئی واسطہ ثابت نہیں ہوا، اسامہ کو گولیاں جان بوجھ کر قتل کرنے کی نیت سے ماری گئیں،گولیاں ایک اہلکار نےنہیں چار سے زائد اطراف سے بائیس گولیاں ماری گئیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات کے مطابق ’سینیئر افسروں کو بھی اندھیرے میں رکھا گیا اور قتل کو چار گھنٹوں تک اسامہ کے خاندان سے چھپایا گیا۔ ڈیوٹی افسر بھی معاملے کا حصہ بن گیا اس نے جائے وقوع کی کوئی تصویر یا ویڈیو نہ بنائی۔ موقع پر پہنچنے والے پولیس افسران کی جانب سے ثبوت مٹانے کی کوشش کی گئی، پولیس نے واقعے کوڈکیتی کا رنگ دینے کی کوشش کی اور سینیئرافسران کو اندھیرے میں رکھا گیا، مقتول کو ریسکیو کرنے والی گاڑی کو غلط لوکیشن بتائی جاتی رہی۔ اسامہ ستّی کی لاش کوپولیس نے سڑک پر رکھا جبکہ پولیس کنٹرول نے 1122 کوغلط ایڈریس بتایا، اسامہ کے قتل کو 4 گھنٹے فیملی سے چھپایا گیا۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی اسکواڈ کو ایس او پیز سے متعلق کچھ علم نہیں نہ ہی ایس پی اے ٹی ایس ایس او پیز سے متعلق کمیشن کو کچھ دکھا یا بتا سکے۔ ‘
فرد جرم
میسر شواہد کو دیکھتے ہوئے گزشتہ برس پندرہ اکتوبر کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا۔ فرد جرم عائد ہونے کے بعد ستائیس اکتوبر سے ٹرائل کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ ملوث ملزم شکیل احمد نے ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ رجوع کیا تو بیس نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ ’ملزم پر فردِ جرم عائد ہو چکی ہے، ٹرائل کورٹ 3 ماہ کے اندر کیس کا ٹرائل مکمل کرے۔‘