اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی انتظامیہ کو مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں واقع ریستوران مونال کو آج ہی سیل کرنے اور نیوی گالف کورس کو تحویل میں لینے کا حکم دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں منگل کی صبح مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تجاوزات کے خلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے کی۔
ہائی کورٹ نے ملٹری ڈائریکٹوریٹ فارمز کا آٹھ ہزار ایکڑ اراضی پر دعویٰ بھی غیر قانونی قرار دیا اور ہدایت جاری کی کہ اس زمین کو مارگلہ ہلز نیشنل پارک کا حصہ تصور کیا جائے۔
عدالت عالیہ نے سیکریٹری دفاع کو نیوی گالف کورس کی تجاوزات کرنے والوں کے خلاف کے خلاف کارروائی حکم دیتے ہوئے متعلقہ حکام کو مارگلہ نیشنل ہلز پارک کی نشاندہی کا کام بھی جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی۔
سماعت کے دوران وفاقی سیکرٹری داخلہ، وفاقی سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل میاں ہلال حسین اور چیئرمین کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) عامر علی احمد کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے سیکرٹری داخلہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا: ’جو کچھ ہو رہا ہے وہ حیرت انگیز ہے، عدالت آپ کو بلا کر بتاتی ہے اور فیصلے دیتی ہے، اسلام آباد میں لاقانونیت ہے، یہ عدالت بار بار فیصلے دے رہی ہے اور آپ کو بتا رہی ہے۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ فوج کی وجہ سے کسی شہری کو مسئلہ نہیں ہونا چاہیے، اور نہ ہی فوج کو متنازع ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد کے تین آرمڈ فورسز کے سیکٹر بن چکے ہیں۔
انہوں نے کمرہ عدالت میں موجود حکام سے دریافت کیا کہ کیا ان سیکٹرز پر قوانین لاگو ہوتے ہیں یا نہیں؟
انہوں نے کہا: ’پاکستان بحریہ نے تجاوزات کر کے گالف کورس بنایا، افواج ایسا کریں تو یہ عوام کی نظر میں بہتر نہیں ہے، عدالت چاہتی ہے کہ عوام کی نظر میں فوج کی عزت بنے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ وزارت دفاع تمام مسلح افواج کا انتظام سنبھالی ہے، تو انہیں بتانا چاہیے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
چیئرمین سی ڈی اے عامر علی احمد نے عدالت کو بتایا کہ حکومت پنجاب بھی کچھ زمینوں پر دعویٰ کرتی ہے، اس پر عدالت کا کہنا تھا کہ 1960 کے آرڈیننس کے بعد 1400 مربع میل علاقے میں تمام زمین سی ڈی اے کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت فیصلے میں تمام چیزوں کی وضاحت کرے گی، اور مختصر حکم آج ہی جاری کیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ نیشنل پارک کی زمین کی حدبندی کی نشاندہی کون کرے گا؟ اس پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ یہ کام ڈسٹرکٹ کلکٹر کا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عام آدمی نیشنل پارک میں نہیں جا سکتا، اور ایسا اشرافیہ کی وجہ سے ہے۔
چیئرمین سی ڈی اے عامر علی احمد نے عدالت میں کہا کہ ہر ادارے نے کہیں نہ کہیں تجاوزات کر رکھی ہیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہائی کورٹ نے تو کوئی تجاوزات نہیں کی ہوئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے کوئی تجاوزات کی ہوئی ہیں تو ادھر ہی سے کام شروع کریں۔
انہوں نے کہا کہ جب حکومتی ادارے تجاوزات سے ہٹ جائیں گے تو کسی اور کی بھی ایسا کرنے کی ہمت نہیں ہو گی۔
سیکریٹری دفاع نے ایک موقع پر کہا کہ اسلام آباد کے گردو نواح میں واقع دیہاتوں اور مختلف گاوں کی طرف سے بھی تجاوزات ہو رہی ہیں۔
چئیرمین سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ غور و خوص کے بغیر ہی اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں، جس سے مسائل بن رہے ہیں۔
اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے ماسٹڑ پلان کو عوام کے سامنے رکھا جانا چاہیے۔
چئیرمین سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ آج وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی یہ مسئلہ رکھا جائے گا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم سب کے سر شرم سے جھکنے چاہئیں کہ یونان کا ایک شخص یہاں آکر ماحول کے تحفظ پر کام کرتا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے چیف کمشنر اسلام آباد کو منگل کو ہی مونال کو سیل کرنے اور سی ڈی اے کو نیوی گالف کورس کو تحویل میں لینے کا حکم دیا۔
کارروائی کے دوران چیف جسٹص اطہر من اللہ نے حکام سے مونال کی قانونی حیثیت دریافت کرتے ہوئے کہا کہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کیسے نیشنل پارک میں داخل ہو سکتی ہے، اور اگر مونال کی لیز ختم ہو چکی ہے تو اسے سیل کیا جانا چاہیے۔
عدالت نے انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کو تعمیرات کے سبب نقصان کا تخمینہ لگا کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کی۔