’یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں مسلمان نہیں ہوں، میرے استاد نے مجھے مارا کیونکہ میں انہیں سورہ فاتحہ نہیں سنا پایا تھا۔ مجھے یاد ہی نہیں تھی، لیکن اس مار کے ڈر سے پھر میں نے قرآنی سورتیں یاد کرنا شروع کیں۔‘
’میری امی کہیں سے قرآنی دعاؤں کی کتاب ڈھونڈ کر لائیں۔ میں ان سورتوں کو پڑھنے میں اپنے مسلمان دوستوں سے مدد لیتا تھا۔ پھر میں نے دعائے قنوت بھی یاد کی اور آیت الکرسی بھی۔ یہ دعائیں مجھے اب بھی یاد ہیں۔‘
لاہور کے رہائشی شہزاد جوزف (اصل نام ظاہر نہیں کیا جارہا) نے دس سال قبل سکول چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے ایک سرکاری سکول سے مڈل یعنی آٹھویں تک تعلیم حاصل کی ہے۔
شہزاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب وہ سکول میں تھے تو قرآن نہیں پڑھایا جاتا تھا لیکن اسلامیات لازمی مضمون تھا جو سب بچوں کو پڑھنا پڑتا تھا، چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔
بقول شہزاد: ’اس مضمون میں بچوں کو قرآن کی مختلف سورتیں اور دعائیں یاد کرنا پڑتی تھیں اور اگر سبق یاد نہیں ہوتا تھا تو استاد اچھا خاصا مارتے تھے اور اسی مار کے ڈر سے مجھے بھی بہت سی سورتیں اور دعائیں یاد کرنا پڑیں جو مجھے اب بھی یاد ہیں۔‘
پنجاب حکومت نے گذشتہ سال 30 اگست کو ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروں اور مدارس میں قرآن مجید کی تعلیم کو لازمی قرار دیا تھا۔ یہ فیصلہ گذشتہ سال 18 مئی کو پاس کیے جانے والے ترمیمی ایکٹ 2021 کے تحت کیا گیا تھا۔
اسی طرح وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی سکولوں میں صبح کی اسمبلی کے دوران ’درود شریف‘ پڑھائے جانے کی ہدایات جاری کی تھیں جس کا نوٹیفیکیشن گذشتہ سال 30 نومبر کو جاری کیا گیا تھا۔
اب حالیہ صوبائی حکومت نے تمام ضلعی ایجوکیشن اتھارٹیز کے سی ای اوز کو ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے کہ وہ تمام سرکاری سکولوں میں مسلمان بچوں کا ریکارڈ مرتب کریں اور 14 جنوری تک تحریری طور پر یہ بتائیں کہ مسلمان بچوں کی تعداد کتنی ہے جبکہ تمام سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے غیر مسلم بچوں کا بھی ریکارڈ مرتب کر کے ان کی تعداد بھی بتائی جائے۔
دوسری جانب مانیٹرنگ اینڈ امپلی مینٹیشن یونٹ آف پنجاب ایجوکیشن سیکٹر ریفارمز پروگرام (PMIU-PESRP) کے تحت تمام سی ای اوز کو یہ ہدایت بھی جاری گئی ہےکہ سکول انفارمیشن سسٹم (SIS) میں مذہب کے خانے کا اضافہ کرکے اس میں تمام معلومات شامل کی جائیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے صوبائی وزیر تعلیم مراد راس سے گفتگو کی، جنہوں نے بتایا کہ پنجاب کمپلسری ٹیچنگ آف ہولی قرآن ایکٹ 2021 کے تحت سکول انفارمیشن سسٹم (SIS) میں طالب علموں کے مذہب کا خانہ شامل کر دیا گیا ہے۔
بقول مراد راس: ’یہاں سے مرتب ہونے والا ڈیٹا ہمیں مدد کرے گا کہ ہمیں سکول کی سطح پر کتنے مزید اساتذہ کی ضرورت ہے جو بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھا سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ SIS میں ڈیٹا انٹری کا کام ابھی جاری ہے۔‘
اس حوالے سے جب سینٹر فار سوشل جسٹس ایگزیکٹیو کے ڈائریکٹر پیٹر جیکب کی رائے جانی گئی تو وہ صوبائی حکومت کے ان اقدامات سے کچھ خوش نظر نہ آئے۔
انہوں نے کہا: ’پنجاب حکومت گذشتہ تین برسوں میں کچھ ایسے اقدامات کر رہی ہے، جس میں تعلیم کو انتہا پسندی اور عدم برداشت کی جانب لے جایا جا رہا ہے۔ پہلے انہوں نے درسی کتب کے ریویو کے لیے ایک علما بورڈ بنایا جس کی مثال کسی اور صوبے میں نہیں ملتی۔‘
بقول پیٹر جیکب: ’ایک طرف یہ یکساں نصاب اور تعلیم کی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب ایسے اقدامات کر رہے ہیں جو دوسرے صوبوں میں نہیں کیے جارہے۔ نہ ہی ان اقدامات کی ہدایات وفاقی وزارت تعلیم کی جانب سے آئیں۔ جو ہدایات آئی ہیں ان کے مطابق پہلی پانچ جماعتوں کے لیے ایک نصاب ترتیب دیا گیا ہے کہ اسلامیات کے مقابلے میں پانچ مختلف مذاہب کے بچے اپنا مذہبی مضمون پڑھ سکتے ہیں، لیکن پنجاب میں وہ لاگو نہیں کیا جارہا۔‘
’یہ جو نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے کہ مسلمان اور غیر مسلمان بچوں کا ریکارڈ بنایا جائے، اس کے پیچھے بھی ہمیں مثبت عمل کم ہی نظر آتا ہے کیونکہ اگر مثبت ہوتا تو ان غیر مسلم بچوں کے لیے ان کی اپنی مذہبی تعلیم کا کوئی انتظام کیا جاتا جس کے لیے کوئی پیش قدمی نہیں کی جارہی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت زیادہ سے زیادہ سکولوں میں مدرسوں کا ماحول بنایا جا رہا ہے، جو یقیناً نہ صرف تعلیمی مقاصد کے برعکس ہے بلکہ اکیسویں صدی میں جو تعلیم ملنی چاہیے، اس کے بھی برعکس ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پیٹر جیکب نے کہا: ’ہماری قومی پالیسی نصاب میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو تخلیقی تعلیم سکھائی جائے مگر یہ تو رٹا سکھا رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک اور نوٹیفکیشن بھی جاری ہوا کہ سکولوں میں کو ایجوکیشن (مخلوط تعلیم) نہیں ہوگی۔ حالانکہ دنیا بھر میں کو ایجوکیشن کو ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے بہتر سمجھا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں خاص طور پر صنف اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے والے اصول بنائے جارہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ آرٹیکل 25 میں سب سے یکساں سلوک کرنے اور سب کو مفت اور عام تعلیم دینا حکومت کا فرض ہے، لیکن اس کے بجائے شعبہ تعلیم اور تعلیم کے مقاصد کو متنازع بنایا جارہا ہے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق ان اعدادوشمار سے صوبائی حکومت کو یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ انہیں جماعت اول کے لیے کتنے تجویدی قاعدے جبکہ جماعت ششم سے نہم تک کتنے ترجمہ والے قرآن چھپوانے ہیں۔
اسی طرح غیر مسلم بچوں کو قرآن کی بجائے اخلاقیات کا مضمون پڑھایا جائے گا اور اسی لیے غیر مسلم بچوں کے اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار اخلاقیات کی کتابیں چھپوانے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔
سکول انفارمیشن سسٹم میں 11 جنوری تک شامل کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق پنجاب کے 36 اضلاع کے سرکاری سکولوں میں تعلم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد ایک کروڑ 19 لاکھ 22 ہزار 489 ہے جن میں مسلمان طالب علموں کی تعداد 30 لاکھ نو ہزار 497 ، جبکہ غیر مسلم طالب علموں کی تعداد 47 ہزار 501 ہے جبکہ 80 لاکھ 65 ہزار 491 طالب علموں کو ابھی مارک نہیں کیا گیا۔
سیکرٹری ایجوکیشن ملتان احتشام انور نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اب غیر مسلم بچے اپنی اخلاقیات کی کتاب ہی پڑھیں گے۔ وہ اب اسلامیات یا قرآن نہیں پڑھیں گے اور جہاں تک درودشریف کی بات تو بچے اسمبلی تو نہیں چھوڑ سکتے مگر درود شریف کے دوران وہ اپنی مرضی سے خاموش رہ سکتے ہیں۔‘
اس بارے میں مذہبی نقطۂ نظر کیا ہے، یہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے چئیر مین تنظیم اتحاد امت پیر محمد ضیاء الحق نقشبندی سے رابطہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اسلام میں زبردستی جائز نہیں لیکن ایک مسلم شہری کے لیے قرآن پاک کے حوالے سے ایسی سہولیات کا سکول میں ہونا ضروری تھا لیکن غیر مسلموں کو قران مجید یا درود شریف پڑھنے یا سننے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔‘ انہوں نے کہا کہ البتہ ’اگر غیر مسلم اپنی مرضی قرآن مجید سنتا یا درود شریف پڑھتا ہے تو اس سے خیر برآمد ہو سکتی ہے۔‘