صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کے تاریخی گھنٹہ گھر چوک میں جمعے کی شب پنجاب کے قدیم تہوار لوہڑی کا انعقاد کیا گیا۔
اس موقعے پر لوک فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا جبکہ شہریوں کی بڑی تعداد نے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈال کر اور رقص کر کے خوشی منائی۔
لوہڑی کے سلسلے میں آگ کے الاؤ بھی جلائے گئے اور مہمانوں کی خشک میوہ جات اور چائے سے تواضع کی گئی۔
لوہڑی کے منتظم محمد احمد نے بتایا کہ یہ موسمی تہوار سینکٹروں برس پرانا ہے اور اسے منانا بہت ضروری ہے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ پنجاب کی ثقافت کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے کہ اس کی ثقافت اور زبان کو ختم کر رہے ہیں۔ ’ہم اپنی ثقافت اور زبان بچا رہے ہیں جیسے لوہڑی اور بیساکھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں جس طرح پریشانیاں بڑھ رہی ہیں، اس کو ختم کرنے کے لیے علاقائی تہوار منانا ضروری ہے۔
لوہڑی کا تہوار دیسی مہینے پوہ کی آخری اور ماگھ کی پہلی تاریخ کی درمیانی رات کو منایا جاتا ہے۔ ماضی میں یہ ایک زرعی تہوار تھا جو گنے کی کٹائی کے بعد منایا جاتا تھا۔
اس موقعے پر دیہات کے لوگ شام کے وقت چوپال میں آگ جلا کر جاتی سردی کا مزہ لیتے اور ہنستے گاتے سردیوں کی سوغات گڑ، ریوڑیوں اور مونگ پھلی وغیرہ سے لطف اندوز ہوتے۔
بعد ازاں یہ تہوار پنجاب کے بہادر سپوت دُلا بھٹی کی یاد میں انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منایا جانے لگا۔
دلا بھٹی نے شہنشاہ اکبر کے دور میں ان کے حرم کے لیے اغوا کی گئی ایک ہندو لڑکی کو فوجیوں سے آزاد کروایا تھا، جس پر بعد میں انہیں بغاوت کے الزام میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
اس تہوار سے روایت منصوب ہے کہ ’مغل دور میں شہنشاہ اکبر کے اہل کار ایک خوبصورت ہندو لڑکی کو اغوا کر کے ان کے حرم میں داخل کرنے کے لیے لے جا رہے تھے کہ پنڈی بھٹیاں کے راجپوت سردار رائے عبداللہ بھٹی (دُلا بھٹی) کو اس کی اطلاع مل گئی۔
وہ لڑکی کو مغل فوجیوں سے چھڑا کر جنگل میں لے گئے اور وہاں ایک ہندو لڑکے کے ساتھ اس کی شادی کر دی۔
اس شادی میں لڑکی کے ماں باپ تھے اور نہ پنڈت یا مذہبی پروہت۔ دُلے نے خود ہی آگ جلائی، خود ہی باپ بن کر لڑکی کا کنہیا دان کیا اور خود ہی پنڈت بنے۔
انہوں نے لڑکی کو ایک سیر شکر اور تلوں کا تحفہ بھی دیا، دُلے بھٹی کو شادی کے منتر نہیں آتے تھے سو پھیروں کے دوران انہوں نے جو الفاظ ادا کیے اب اسے لوہڑی کا گیت کہتے ہیں۔
تب سے یہ گیت اس تہوار پر دُلے بھٹی کی یاد میں اسی طرح گایا جاتا ہے، جس کے بول کچھ یوں ہیں۔
’سندر مندرئے (خوبصورت لڑکی) تیرا کون وچارا (تمہارے متعلق کون سوچتا ہے؟) دُلّا بھٹی والا (بھٹی قبیلے کا دلا) دُلے دھی وہیائی (دُلے نے بیٹی کی شادی کی) سیر شکر پائی (اسے ایک سیر شکر دی) کڑی دا لال پٹاکا (لڑکی نے سرخ کپڑے پہن رکھے ہیں) کڑی دا سالو پاٹا (لڑکی کی شال پھٹی ہوئی ہے )۔‘
جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں شعبہ تاریخ کے استاد توحید احمد چٹھہ کے مطابق لوہڑی پنجاب کے اتحاد کی نشانی ہے۔
’اس دن دُلے بھٹی نے دو ہندو عورتوں کو اس وقت کے ظالم بادشاہ سے بچا کر لوہڑی کے لیے جلائے گئے الاؤ پر پھیرے کروا کر ان کو اپنے گھروں کو رخصت کیا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ دُلا بھٹی پنجاب میں آزادی کا ایک استعارہ ہیں جن کے نام پر پوری دنیا میں یہ تہوار منایا جاتا ہے۔
تقسیم سے پہلے پنجابی مسلمان، ہندو اور سکھ مل کر لوہڑی مناتےتھے۔ لوہڑی والے دن بچے لوہڑی گاتے ہوئے گھر گھر جاتے اور انہیں مٹھائیاں، کھانے پینے کی چیزیں اور پیسے دیے جاتے جبکہ شام کے وقت لوگ آگ کے گرد بیٹھ کر دُلے بھٹی کی یاد میں لوہڑی کے گیت گاتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈین پنجاب میں 1947 کے بعد سے یہ تہوار اب تک اسی طرح منایا جاتا ہے جیسے تقسیم سے پہلے منایا جاتا تھا لیکن پاکستان میں اسے سکھ مذہب سے جوڑ کر فراموش کر دیا گیا۔
تاہم گذشتہ کچھ سالوں سے پنجابی زبان وادب کے فروغ کے لیے کام کرنے والی مختلف تنظیموں اور شخصیات نے فیصل آباد میں اس تہوار کو منانے کی روایت کو پھر بحال کیا ہے۔
فیصل آباد آرٹس کونسل کے سابق ڈائریکٹر محمد طارق کا کہنا ہے کہ اس تہوار کو زندہ رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ یہ صرف ادھر ہی نہیں بلکہ بھارتی پنجاب میں بھی منایا جاتا ہے۔
’یہاں پر کیونکہ حالات کچھ اس طرح کے تھے اس کی وجہ سے کچھ عرصے تک اسے نہیں منایا گیا۔ اب یہ شروع ہوا ہے اور آٹھ، دس سال پہلے یہ پہلی مرتبہ فیصل آباد آرٹس کونسل میں منایا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری سوسائٹی میں جس طرح گھٹن ہے اس سے نکلنے کے لیے ہمیں اس طرح کی ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔