کراچی آرٹس کونسل میں گذشتہ رات بروشسکی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں گلگت سے تعلق رکھنے والے بروشوز اور دیگر شہریوں نے شرکت کی۔
مادری زبان کے طور پر بروشسکی بولنے والے افراد بروشو کے نام سے جانے جاتے ہیں اور کراچی میں بروشو برادری سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد موجود ہیں۔
بروشسکی کا شمار دنیا کی قدیم اور تیزی سے معدوم ہوتی زبانوں میں کیا جاتا ہے۔ یہ زبان گلگت بلتستان کے علاقے ہنزہ، نگر، یاسین اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ڈنڈوسا، بٹگام، بٹ مالو، سری نگر، ترال،اننت ناگ اور سری نگر میں بھی بولی جاتی ہے۔
یو ایس نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کی طرف سے بنائی گئی ویب سائٹ ’ان ڈینجرڈ لینگوئجز ڈاٹ کام‘ بروشسکی کو تیزی سے معدوم ہوتی زبانوں میں شامل کرتی ہے۔
ویب سائٹ پر موجود یونیورسٹی آف ہوائی اور ایسٹرن منی سوٹا یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق 2012میں اس زبان کے ختم ہو جانے کا خطرہ اسی فیصد کی حد کو چھو رہا تھا۔ ایک لاکھ تین سو افراد اس زبان کو بولنے والے اُس وقت دنیا میں موجود تھے اور یہ اعداد و شمار بھی پاکستان میں موجود بروشسکی افراد سے اکٹھے کیے گئے تھے۔
ویب سائٹ کے مطابق ’اردو کے غلبے کے نتیجے میں بروشوز کی اکثریت اردو کی طرف منتقل کرنے کے لیے مجبور ہے۔’نتیجتاً، بہت سے نوجوان نسل کے بروشوز کو صرف بروشسکی میں مناسب مہارت حاصل ہے۔ زیادہ تر نوجوانوں نے تعلیم اور روزگار کے لیے بڑے شہروں میں جانے کا انتخاب کیا ہے۔ وہ اردو کو بحیثیت بنیادی زبان استعمال کرنے کی طرف مائل ہو چکے ہیں۔ اس طرح بروشسکی زبان کا نامکمل علم بہت عام ہے اور موجودہ نسل میں بروشکی تیزی سے زوال پذیر ہے۔‘
کانفرنس کی تفصیلات
بروشسکی کانفرنس میں اس زبان کی تاریخ، حال اور مستقبل کے حوالے سے گفتگو کی گئی نیز کراچی میں مقیم بروشسکی بولنے والے شعرا نے اپنا کلام اور فنکاروں نے لوک داستانوں سمیت دیگر فنون کا مظاہرہ کیا۔
کانفرنس میں دو پینل ڈسکشنز ہوئیں جن میں سے ایک بروشسکی زبان وادب کے بارے میں تھی اور دوسری ڈیجیٹل ایرا اور بروشسکی کے عنوان سے تھی۔
شریک پینل میں ماہر لسانیات ڈاکٹر محمد عیسیٰ، ریسرچر شہناز ہنزائی، ریسرچر رضوان قلندر، بروشسکی استاد منہاج موسوی اور بروشسکی زبان کے شاعر و صحافی علی احمد جان موجود تھے۔
کشمیر میں بولی جانے بروشسکی کے بارے میں ڈاکٹر صدف منشی نے آن لائن گفتگو کی۔
بروشسکی زبان کی ابتدا
تاریخی طور پر بروشو افراد اور ان کی زبان طویل عرصے تک اسرار کی دھند میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ایک قصہ یہ مشہور ہے کہ بروشو وہ افراد تھے جو سکندر اعظم کے ساتھ بطور فوجی اس علاقے میں آئے لیکن بیمار پڑے تو وہیں ٹھہر گئے۔
ایک اور کہانی یہ ہے کہ بروشوز کے آباؤ اجداد ایران سے سے نقل مکانی کر کے یہاں آئے اور تیسرا ایک نظریہ کہتا ہے کہ بروشو لوگ ’ہن‘ نامی چینی قبیلے کی شاخ ہیں جن میں سے کچھ ہنگری چلے گئے اور کچھ قراقرم کے آس پاس آباد ہوئے۔
ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے ایک مضمون (مطبوعہ ڈان) کے مطابق ’ہنگرین زبان اور بروشسکی میں کچھ الفاظ اور خاندانی ناموں کے درمیان مماثلت کی تصدیق ہنگری کے تحقیق کاروں نے کی ہے جس سے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ ہنگری کی طرف کوچ کر گئے اور باقی پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں آباد ہوئے۔
’پاکستان کے بہت سے بروشو سکالرز کا خیال ہے کہ ہنزہ کی اصل شکل ’ہن زا‘ تھی جو فارسی زبان کے لفظ ’ہن زاد‘ یا ’ہن زادہ‘ کا بگڑا ہوا تلفظ ہے، جس کا مطلب ہوا ’ہن، قبیلے والا‘۔ جہاں تک گنتی اور ہندسوں کا تعلق ہے بروشسکی فرانسیسی زبان سے کچھ مماثلت رکھتی ہے۔‘
انسائیکلوپیڈیا ایران کے مطابق بروشسکی میں متعدد ایسے الفاظ ہیں جو مختلف اوقات میں پڑوسی زبانوں سے مستعار لیے گئے ہیں۔
پرانے الفاظ زیادہ تر شینا زبان سے ہیں۔ علاقے میں بولی جانے والی کھوار ، ترکی اور تبتی سمیت دری زبان کے چند الفاظ بھی موجود ہیں۔ اردو اور انگریزی کے چند الفاظ بھی بروشسکی میں آہستہ آہستہ شامل ہو رہے ہیں۔
اٹھارہ ہزار سال پرانی زبان
محمد وزیر شفیع بروشسکی زبان کے تحقیق کار ہیں، یہ ان کی آبائی زبان ہے۔ بروشسکی زبان کی ترویج سے متعلق ایک کمیٹی ’بروشو مہرکہ‘ کے صدر محمد وزیر شفیع اس زبان کے بارے میں ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ تبتی تحقیق کاروں کے مطابق یہ زبان اٹھارہ ہزار سال پرانی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ ’انگریزوں اور ان کے پولیٹیکل ایجنٹس نے اس زبان پر کام کرنا شروع کیا، ڈاکٹر ہرمن برگل سمیت بہت سے جرمن سکالرز نے بروشسکی میں دلچسپی لی۔ ستر کی دہائی میں اس زبان کی گرامر اور ہئیت پر لنگوئسٹس کا بہت دھیان رہا، ہندی اور کاکیشن زبانوں سے اس کے تعلقات کی کھوج نکالنے کی کوشش کی گئی۔ یونیورسٹی آف مونٹریال کے 1992 میں شائع شدہ ایک مقالہ بروشسکی کا تعلق سائبیرین زبان سے بھی دکھاتا ہے۔‘
بروشسکی کہاں سے آئی، شروع کیسے ہوئی اس بارے میں محمد وزیر شفیع کہتے ہیں کہ ’ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آسٹریلین لنگوئسٹ چیشولے کے مطابق یہ انڈویورپین خاندان کے کچھ افراد تھے جو سات سو قبل مسیح میں اس علاقے میں آئے اور انہوں نے اس زبان کو فروغ دیا۔ تحقیق کے حوالہ جات میں میسی ڈونیا سے کچھ لوگوں کی نقل مکانی کا اس زمانے میں سراغ ملتا ہے جو اس دعوے کو درست ماننے میں ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ ’آرکیالوجسٹ اور تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ تاجکستان سے محلقہ چینی حصہ تریم بسین قدیم بروشوز کا علاقہ تھا جو وہاں سے لے کر افغانستان اور وسطی ایشیا تک پھیلا ہوا تھا۔ اینشنٹ پیپلز اینڈ لینگویجز آف انڈیا نامی کتاب کے مطابق وسط ایشیائی علاقوں میں تین ہزار سال پہلے یہ زبان باقاعدہ عام بول چال میں شامل تھی اور وسطی ایشیا کی لنگوا فرانکا (رابطے کی زبان)تھی۔ تاجکستان سے 2001کے آس پاس چند ممیاں دریافت ہوئیں جو بروشو افراد کی بتائی جاتی ہیں۔ تاجکستان ہی میں موجود ایک قلعے حصار شومان میں بروشسکی عہد حکومت کے بہت سے باقیات موجود ہیں اور یہ قلعہ خود بروشوز کا ہی تعمیر شدہ ہے۔‘
محمد وزیر شفیع نے اس زبان کے رسم الخط کے حوالے سے بتایا کہ ’بدھ مذہب سے پہلے اس علاقے میں موجود بون نامی مذہب کے پیروکار بروشو افراد ہی تھے۔ بون مذہب کی ابتدائی تعلیمات بروشسکی میں لکھی گئیں اور بدھ ازم پھیلنے کے بعد اس کے پیروکاروں نے پچھلے مذہب (بون ازم) سے متعلق چیزیں جب تلف کیں تو بروشسکی میں لکھے مذہبی و دیگر مسودے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیے گئے۔‘
’دسویں صدی عیسوی کے بعد اس زبان کا زوال شروع ہوا۔ بروشسکی کے رسم الخط کو بروشا یا دروشا کہا جاتا تھا جو اب تبت حکوت کے ذریعے یونی کوڈ بھی ہوچکا ہے۔ آج بھی تبت میں اس سکرپٹ میں مقامی افراد اپنے جسم پر ٹیٹو بنواتے ہیں۔ اس زبان کے اپنے سکرپٹ پر زیادہ کام نہیں ہو سکا کیونکہ بدھ مذہب کی آمد کے بعد بون مذہب کے متعلقات کو جلا کر تقریبا تلف کر دیا گیا۔ ساٹھ ستر صفحے اوریجنل سکرپٹ میں اب بھی تبتی لوگوں کے پاس اس زبان کے محفوظ ہیں۔‘
بروشو مہرکہ کے نام سے محمد وزیر شفیع سمیت متعلقین نے بروشوز کو اکٹھا کر کے اس زبان کا رسم الخط ترتیب دیا، ایڈیٹوریل بورڈ بنایا گیا اور زبان کی دوبارہ ترویج کی کوشش شروع کی گئی۔
ان کا کہنا تھا ’کوشش یہ ہے کہ بروشسکی زبان میں موجود دوسری زبانوں کے الفاظ کو ختم کر کے مقامی الفاظ کو دوبارہ رائج کیا جائے اور اس زبان کی نشر و اشاعت میں باقاعدگی لائی جا سکے۔‘
بروشسکی اکیلی ہے
علی احمد جان شینا اور بروشسکی زبان کے محقق ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’بروشسکی کو منفرد اور تنہا اس لیے کہتے ہیں کہ برصغیر میں موجود دیگر زبانوں سے اس کا تعلق بہت کم نکلتا ہے۔ یہ زبان اپنی طرح کی واحد ایک زبان ہے جو بہت کم لوگوں تک محدود ہے اور ان کی تعداد مزید گھٹتی جا رہی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’بروشسکی اپنی انفرادیت کے حوالے سے اس لیے بھی ممتاز ہے کہ اس میں شاعری کی روایت بھی بہت کم ہے اور پہلے مستند شاعر علامہ نصیر ہنزائی ہیں۔‘
علی احمد جان کے مطابق ’پاکستان کی تقریباً ستر دیگر ایسی زبانیں ہیں جو معدومیت سے دوچار ہیں لیکن بروشسکی اکیلی اور انٹرکنیکٹڈ نہ ہونے کی وجہ سے شدید خطرے میں ہے۔ حالیہ زمانے میں اس زبان ہر بہت کام ہوا ہے۔ ڈکشنری بنائی گئی ہے لیکن یہ سب ریاستی سرپرستی میں نہیں ہو۔ سرکار کی طرف سے اس سلسلے میں اگر کوئی پیش قدمی نہ کی گئی تو یہ زبان صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔‘