نور مقدم قتل کیس میں پیر کو مقدمے کے تفتیشی افسر کا بیان ریکارڈ کیا گیا جبکہ مقتول کے والد پر ملزم ظاہر جعفر کے وکیل ذوالقرنین سکندر نے جرح کی۔
آج ملزم کو گاڑی سے کرسی پر بٹھا کر کمرہ عدالت تک لایا گیا۔
اسلام آباد ڈسٹرکٹ سیشن عدالت میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت چار گھنٹے تک جاری رہی جس دوران چار مرتبہ وقفہ لیا گیا۔
جونیئر وکیل نے کرونا وائرس کے باعث ملزم کے وکیل ذوالقرنین سکندر کی عدم موجودگی میں سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی تو جج نے ریمارکس دیے کہ سٹیٹ کونسل معاونت کرتا ہے نہ کہ رکاوٹ پیدا کرتا ہے؟
اس پر جونیئر وکیل نے کہا کہ ذوالقرنین سکندر وڈیو لنک کے ذریعے شوکت مقدم پر جرح کر لیں گے۔
ویڈیو لنک سے جرح کے دوران شوکت مقدم نے بتایا کہ ’جب 19 جولائی کو وہ گھر سے نکلے تو سمجھے نورمقدم گھر پر ہیں۔
’میری بیٹی سارہ 35 ، بیٹا محمد علی 33 اور نور 27 عمر کی تھیں اور بیوی کا نام کوثر ہے۔ نور مقدم نے کال کی اور بتایا کہ وہ دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہیں۔‘
شوکت مقدم نے مزید بتایا کہ وہ اس سے پہلے بھی دو تین دفعہ ایسا کر چکی ہیں لیکن پہنچ کر بتا دیتی تھیں۔
’لاہور جانے سے متعلق تصدیق کے لیے ان کے دوستوں سے بات چیت کی تھی۔ نور کے لاپتہ ہونے سے متعلق پولیس کو میں نے رپورٹ نہیں کروائی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ظاہر جعفر نے انہیں جو کال کی وہ کال ڈیٹا میں نہیں۔ انہوں نے ’میرے ذاتی واٹس ایپ نمبر پر کال کی تھی جو میں نے تفتیش میں نہیں لکھوایا۔‘
شوکت مقدم نے کہا کہ نور کو ظاہر کے گھر جانے سے کبھی منع کیا اور نہ ہی ظاہر کے والدین کو اس حوالے سے کبھی کچھ کہا۔
اس موقعے پر وکیل ذوالقرنین سکندر نے کہا کہ وہ ان سے کچھ سخت سوالات کریں گے لہٰذا وہ غصہ نہ ہوں۔
انہوں نے پوچھا کہ ’آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سفارت کار رہے، کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس طرح کا تعلق رکھا جا سکتا ہے؟
اس پر شوکت مقدم نے جواب دیا کہ یہ قابل قبول ہے کیونکہ یونیورسٹی میں پڑھنے والے 20٫25 سال کی عمر کے بچے اکٹھے اٹھتے بیٹھتے ہیں۔
وکیل نے اگلے سوال میں نور مقدم اور ملزم کے مابین تعلقات کا پوچھا تو مدعی کے وکیل شاہ خاور نے مداخلت کرتے ہوئے اعتراض کیا جسے عدالت نے قبول کرتے ہوئے ذوالقرنین سکندر سے کہا کہ یہ سوال ڈراپ کر دیں۔
اس پر وکیل نے شوکت مقدم سے کہا کہ ’معذرت آپ سے سخت سوالات کیے۔‘
انہوں نے ظاہر جعفر کے لندن ڈی پورٹ ہونے کے متعلق پوچھا تو شوکت مقدم نے کہا کہ انہیں اس بارے میں علم نہیں۔
مقدمے کے تفتیشی افسر عبدالستارنے بیان قلم بند کراتے ہوئے بتایا کہ 20 جولائی کی رات 10 بجے تھاںہ کوہسار کے علاقے میں قتل ہونے کی اطلاع ملی تو وہ ٹیم کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچے جہاں مدعی مقدمہ شوکت مقدم پولیس کے ہمراہ موجود تھے۔
’گھر کی پہلی منزل پر کمرے میں مقتولہ نورمقدم کی لاش پڑی تھی اور سر تن سے جدا تھا۔‘
تفتیشی افسر نے سی سی ٹی وی فوٹیج کے حوالے سے بھی عدالت کو آگاہ کیا۔ ملزمان کے وکیل اکرم قریشی اور بشارت اللہ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ تفتیشی افسر ریکارڈ دیکھ کر شہادت دے رہے ہیں۔
اس پر جج عطا ربانی نے ریمارکس دیے کہ پہلے شہادت مکمل ہونے دیں پھر آپ کا اعتراض لکھیں گے۔
سماعت کے دوران جج نے استفسار کیا کہ مرکزی ملزم کدھر ہے، جس پر ملزم کے وکیل نے کہا کہ صبح سے تین دفعہ کہہ چکا ہوں پولیس ملزم کو پیش نہیں کر رہی۔
عدالت نے سماعت میں کھانے کا وقفہ کیا، جس کے بعد ظاہر ملزم کو پیش کر دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس کی گاڑی سے بخشی خانے اور بخشی خانے سے کمرہ عدالت تک ملزم کو کرسی پر بٹھا کر لایا گیا۔
کمرہ عدالت میں 10 منٹ کی پیشی کے دوران ملزم مبینہ طور پر منہ سے عجیب آوازیں نکالتے رہے۔
ایسے میں ملزم کے وکلا نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ ’ہم نے پہلے ہی بتایا تھا کہ ظاہر جعفر کی دماغی حالت بہت خراب ہے لیکن کوئی میڈیکل نہیں کرایا جا رہا۔‘
اس پر جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے جیل انتظامیہ کو ملزم کے طبی معائنے کے لیے خط لکھ رکھا ہے۔
عدالت نے کیس کی مزید 20 جنوری تک ملتوی کر دی۔