اسلام آباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے حلف نامے کے حوالے سے توہین عدالت کیس میں ان پر فرد جرم عائد کر دی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کی سربراہی میں جمعرات کو توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالت نے فرد جرم عائد کیا، تاہم رانا شمیم نے صحت جرم سے انکار کیا۔
عدالت نے رانا شمیم کے پراسیکیوٹر کی تبدیلی کی درخواست اور فرد جرم سے قبل انکوائری کروانے کی درخواست بھی مسترد کر دی۔
صحافیوں کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی موخر کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف چارج فریم نہیں کیے جا رہے لیکن اگر سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔
کیس کی مزید سماعت 15 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔
سماعت میں کیا ہوا؟
دس بجے سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے کہا کہ آج تمام ذمہ داران پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔
رانا شمیم نےعدالت سے کہا کہ ان کے وکیل ابھی راستے میں اس لیے کچھ وقت دیا جائے۔ عدالت نے ایک گھنٹے کا وقفہ کیا اور دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مزید تاخیر ہوئی تو اس عدالت کی بہت بے توقیری ہو گی۔ ہم اب کارروائی آگے بڑھائیں گے۔
رانا شمیم نے کہا میری ایک درخواست ہے لیکن چیف جسٹس نے انہیں بولنے سے روک دیا۔ اسی دوران اسلام آباد ہائی کورٹ پریس ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر نے عدالت سے درخواست کی کہ صحافیوں کی حد تک عدالت نظر ثانی کریں اور فرد جرم عائد نہ کریں۔ چیف جسٹس نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ عدالت کا اعتماد متزلزل کیا گیا ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ نے بھی عدالت سے اس معاملے پر درخواست کی اور کہا کہ ہم مانتے ہیں غلطی یہ ہے کہ زیر سماعت معاملے پر ایسی رپورٹنگ نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن عدالت ایک موقع دے دے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک بیانیہ بنا دیا گیا ہے جس کا فوکس اسلام آباد ہائی کورٹ کو بنایا گیا۔ ’یہ عدالت کھلے احتساب پر یقین رکھتی ہے۔‘
سینیئر صحافی ناصر زیدی نے کہا کہ وہ زندگی میں پہلی بار عدالتوں میں پیش ہوئے ہیں اور ان پانچ چھ سماعتوں میں بہت کچھ سیکھا بھی ہے۔ انہوں نے درخواست کی کہ عدالت صحافیوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہ کرے کیونکہ پوری دنیا میں منفی پیغام جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت جو خود آزادی اظہار رائے کو تخفظ فراہم کرتی ہے اس پر بھی چوٹ لگ جائے گی۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے عدالت میں اظہار سے یہ واضح ہے کہ احساس ندامت ہے۔ میری درخواست یہ ہے کہ تینوں صحافیوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی موخر کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ رانا شمیم نے جو کہا وہ اس کو قبول کر رہے ہیں۔ ان پر فرد جرم عائد کر دیں اور قانون کے مطابق کارروائی کریں، لیکن صحافیوں پر فرد جرم عائد نہ کریں۔ ’جب ان کی تنظیم کے سربراہان کہہ رہے ہیں کہ وہ کوڈ آف کنڈکٹ بنا رہے ہیں تو میرے خیال سے یہ نادانستہ غلطی ان کے لیے بھی سیکھنے کا موقع ہے، عدالت موقع دے۔‘
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ اگر تینوں صحافی ناصر زیدی کے ساتھ متفق ہیں تو میں متفق ہوں۔ کہہ دیں تو اُن کے خلاف فرد جرم اور توہین عدالت کی کارروائی موخر کر دیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد رانا شمیم نے اپنی درخواست عدالت میں پڑھ کر سنائی۔ رانا شمیم نے کہا کہ یہ بات سپریم جوڈیشل کونسل کو اس لیے نہیں بتائی کیونکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اس وقت خود سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ پاکستان کی حدود سے باہر پیش آیا اور اس کے ایک ماہ بعد وہ عہدے سے بھی ریٹائر ہو گئے۔ ’بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق میں وہی کچھ بیان کیا گیا جو خود سنا۔‘
رانا شمیم نے کہا کہ یہ حقائق زندگی بھر بیان نہ کرنے کا ارادہ تھا مگر مرحومہ اہلیہ سے کیا گیا وعدہ اور فیملی ممبرز کی اموات کے بعد حالات کے باعث حقائق کو بیان حلفی کی شکل میں ریکارڈ کیا۔
رانا شمیم نے عدالت سے مزید کہا کہ انصاف کے حصول کے لیے یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ سابق چیف جسٹس کا جوابی حلف نامہ بھی انکوائری کے سامنے پیش کیا جائے اور جرح کا موقع دیا جائے۔ ’بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق غلط ثابت ہونے تک یہ کریمنل توہین کا کیس نہیں بنتا اور اگر بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق درست ثابت ہو جائیں تو کیس ہی ختم ہو جائے گا جو کہ منصفانہ انکوائری سے ہی ممکن ہے۔‘
عدالت سے استدعا کرتے ہوئے رانا شمیم نے کہا کہ ان کا بیان حلفی کی تشہیر کا کبھی کوئی ارادہ نہیں تھا اس لیے اسے خفیہ رکھا اور پاکستان سے باہر ریکارڈ کرایا۔ ’اس عدالت کے ججز کا احترام ہے جو آزاد ہیں اور قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ عدالت سے استدعا ہے کہ توہین عدالت کی فرد جرم عائد کرنے کے بجائے حقائق جاننے کے لیے انکوائری شروع کی جائے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ خود بھی جج رہے ہیں، کیا آپ کو فرد جرم عائد ہونے کی کارروائی کا علم ہے؟ رانا شمیم نے جواب دیا کہ ’میں نے بطور جج کبھی کسی پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں کی۔ میں اس پر یقین ہی نہیں رکھتا۔ لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری روزانہ کردار کشی ہو رہی ہے۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم کے دلائل سننے کے بعد کہا کہ میں آپ پر فرد جرم عائد کرنے لگا ہوں۔ انہوں نے چارج شیٹ پڑھ کر سنائی اور رانا شمیم سے پوچھا کہ آپ اس کو تسلیم کرتے ہیں؟ تو رانا شمیم نےک ہا کچھ باتوں کو تسلیم کرتا ہوں کچھ کو نہیں۔ میں وضاحت کرتا ہوں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فرد جرم کی کارروائی ایسے نہیں ہوتی۔ آپ یہ بتائیں کیا آپ خود کو مجرم تصور کرتے ہیں؟ رانا شمیم نے خود کو مجرم تصور کرنے سے انکار کر دیا۔
لیکن خود پر فرد جرم عائد ہو جانے پر رانا شمیم عدالت میں جذباتی ہو گئے اور کہا کہ میں اکیلا ہوں اس لیے مجھ پر فرد جرم عائد کر دی اور باقیوں پر نہیں کی۔ میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں۔ اگر آپ نے یہی سوچ لیا ہے تو مجھے آج ہی سزا سنا دیں، میرے وکیل بھی موجود نہیں، لٹکا دیں پھر مجھے۔ اگر میرے وکیل کے سامنےفرد جرم عائد کی جاتی تو بہتر تھا۔
رانا شمیم سماعت کے بعد عدالت سے نکلتے ہوئے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ انہیں اکیلے دیکھ کر فرد جرم عائد کی گئی ہے اور جس صحافی نے خبر شائع کی اس کو معاف کر دیا گیا۔
رانا شمیم نے مزید کہا کہ انصار عباسی نے خبر چھاپنے سے قبل ان سے پوچھا تھا اور انہوں نے جواب دیا تھا کہ جب تک بیان حلفی سامنے نہ ہو وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ انہوں نے مزید کہا: ’فرد جرم عائد ہونے سے کیا ہوتا ہے؟ فرد جرم سے مراد کسی کو سزا دینا مقصود نہیں ہوتا۔‘
کیس کیا ہے؟
گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی گذشتہ سال تب شروع ہوئی جب میڈیا میں ان سے منسوب ایک حلف نامے کی خبر چھپی، جس میں ان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کو فون پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے کسی جج پر زور ڈالتے سنا کہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔
جنگ اخبار میں شائع خبر کے مطابق ’رانا شمیم نے اپنے مصدقہ حلف نامے میں کہا ہے کہ وہ اس واقعے کے گواہ تھے۔‘
خبر میں کہا گیا کہ رانا شمیم نے یہ بیان اوتھ کمشنر کے روبرو 10 نومبر 2021 کو دیا۔
اس خبر کے شائع ہونے کے بعد رانا شمیم نے خبر کی میڈیا پر آ کر تصدیق کی تھی جبکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس خبر کی سختی سے تردید کی تھی۔
خبر شائع ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاملے پر ازخود نوٹس لے کر اخبار اور رانا شمیم کو شو کاز نوٹس جاری کر دیے تھے۔
اس کیس میں خبر دینے والے صحافی انصار عباسی اور اخبار کے اعلیٰ ایڈیٹرز کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔