وفاقی وزیر خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے جمعے کو کہا ہے کہ اگر منی ایکسچینجرز کو ود ہولڈنگ ٹیکس پر اعتراض ہے تو وہ فیڈرل بیورو آف ریونیو میں اپیل دائر کریں اور اگر وہاں سنوائی نہ ہو تو عدالتوں کا فورم استعمال کریں۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر منی چینجرز کو وِد ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کے بھیجے گئے بلز واپس نہ لیے گئے تو ڈالر چھ سے آٹھ روپے تک مہنگا ہو سکتا ہے۔
ان کے مطابق منی ایکسچینج کمپنیوں کو جو نوٹس بھیجے گئے ہیں وہ چھ فیصد کے حساب سے ہیں لیکن اگر یہی ٹیکسز 16 فیصد کے حساب سے ہوئے جیسا کہ خبریں گردش کر رہی ہیں تو ڈالر 20 سے 25 روپے تک مہنگا ہوسکتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ظفر پراچہ نے واضع کیا ہے کہ حکومت نے حال میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا ہے۔
’دراصل یہ وِد ہولڈنگ ٹیکس 2016 میں واپس لے لیا گیا تھا لیکن اب جنوری 2022 میں اچانک اربوں کے ٹیکس بلز چند منی چینجرز کو بھیج دیے گئے ہیں جن کو واپس لینے کے لیے فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) سے بات چیت چل رہی ہے۔‘
انہوں نے امید ظاہر کی کہ ایف بی آر ان ٹیکس بلز کو واپس لے لے گا۔
مزمل اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ معاملہ ایف بی آر اور ایکسچینج کمپنیز کے درمیان ہے اور ٹیکس لائبلٹی کا معاملہ ہے۔
اس سوال پر کہ ایکسچینج کمپنیز کا کہنا ہے کہ وہ ود ہولڈنگ ٹیکس صارفین کو منتقل کر دیں گے جس سے ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوگا، مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ ’ڈالر کی قدر ایکسچینج کمپنیز طے نہیں کرتیں، جس ادارے پر ٹیکس کی لائبلٹی ہے وہ ڈالر مہنگا بیچ لے جس پر نہیں وہ سستا بیچ لے، گاہک کو اس کے پاس سے سستا ملے گا وہ اس کے پاس جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کے معاملے پر دو تین دن سے خبریں گردش کر رہی ہیں لیکن ڈالر 20 سے 25 روپے مہنگا نہیں ہوا کیوں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی بھی اپنی مرضی سے ڈالر کا ریٹ طے کرے۔
سٹیٹ بینک کے اس معاملے میں کردار کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے قانون یا ضابطے سے ہٹ کر ڈالر کی قدر میں اضافے کی کوشش کی تو پھر سٹیٹ بینک اس معاملے کو اپنے طریقے سے دیکھے گا اور قانون حرکت میں آئے گا۔
’یہ سٹیٹ بینک کا استحقاق ہے کہ وہ کسی کا لائسنس منسوخ کرے یا جرمانے کرے۔‘
پاکستان میں چند بڑے منی چینجرز نے اپنی ایسوسی ایشن کو بتایا کہ ایف بی آر نے انہیں کروڑوں روپے کے ود ہولڈنگ ٹیکس کے بلز بھیجے جو انہیں ادا کرنے ہیں۔
یہ بلز اتنی بڑی رقم کے ہیں کیوں کہ نگراں ادارے نے انہیں 2014 سے 2021 تک کے حساب سے بھیجا ہے۔
ظفر پراچہ نے بتایا کہ حال ہی میں بھیجے جانے ٹیکس بلز کے بعد پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
اُن کے مطابق یہ معاملہ 2010 سے چل رہا تھا لیکن 2016 میں یہ ٹیکس واپس لے لیا گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ڈبل ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ٹیکس صرف پاکستان سے باہر بھیجے جانے والے ترسیلات زر (رمیٹینسز) پر لگایا گیا تھا جو منی چینجرز کو گاہکوں سے وصول کرنا تھا۔
’اس وقت بھی ہمارا موقف تھا کہ یہ ٹیکس ہم پر نہیں لگتا کیوں کہ دیگر ممالک سے ٹیکس سے متعلق ایک معاہدہ ہے اور ڈبل ٹیکس نہیں لگ سکتا۔‘
ان کے مطابق: ’ایف بی آر سے بات کی ہے وہ اسے دیکھ رہے ہیں، امید ہے یہ بلز واپس ہوجائیں گے لیکن اگر واپس نہیں ہوئے تو پاکستانی روپے پر برا اثر پڑے گا۔
’اگر 16 فیصد کے حساب سے ٹیکس کے بلز بھیجے گئے ہیں تو روپے پر 25 سے 28 فیصد فرق آئے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں اس کے علاوہ بھی ایف بی آر نے کئی نوٹسز بھیجے ہیں۔
منی چینجرز کی تنظیم ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق یہ ٹیکس 2016 میں واپس لے لیا گیا تھا لہٰذا اب یہ ٹیکس قابل ادا نہیں۔
اور اگر یہ ٹیکس لاگو ہوا تو پھر کیوں کہ اسے گاہکوں سے وصول کیا جانا ہے لہٰذا اس کا اثر پہلے سے ہی دباؤ میں آئے ہوئے ڈالر پر پڑے گا جو کہ مہنگا ہوجائے گا۔
اس معاملے جب ایف بی آر کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ردعمل دینے کا وعدہ کیا مگر 24 گھنٹے گزر جانے کے باوجود اور اس خبر کو پوسٹ کیے جانے تک ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔