صوبہ بلوچستان میں کئی سالوں سے جاری شدت پسندی پر حالیہ برسوں کے دوران ایک حد تک قابو پا لیا گیا تھا لیکن ایک مرتبہ پھر وہاں شدت پسندی کے واقعات میں اچانک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک شدت پسندوں کا طریقۂ واردات تبدیل کرنا بھی ہے۔
حالیہ دونوں میں شدت پسندوں کی جانب سے ہزارہ برادری اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے واقعات پیش آئے ہیں۔
اس بارے میں انسدادِ دہشت گردی کے محکمے (سی ٹی ڈی) کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ان حملوں میں شدت پسندوں نے گاڑیوں کے نیچے مقناطیسی بم نصب کر کے دھماکے کیے تھے۔
تو کیا اس سے قبل مقناطیسی ساخت کے بموں کا استعمال نہیں ہوا؟ اس حوالے سے بم ناکارہ کرنے والے ادارے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے قبل اسلام آباد میں ملک کے معروف صحافی اور اینکر پرسن حامد میر پر ہونے والے حملے میں اس ساخت کے بم کا استعمال تو ہوا تھا لیکن بلوچستان میں اس سے پہلے شدت پسندی کے واقعات میں مقناطیسی بموں کا استعمال کبھی نہیں ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بم ڈسپوزل سکواڈ بلوچستان کے انسپکٹر عنایت اللہ کے مطابق زیارت میں مقناطیسی بم کا استعمال اس لیے کیا گیا ہے کہ اس سے ہدف کو کم وقت میں نشانہ بنانا آسان ہے۔
انسپکٹر عنایت کے مطابق ’یہ عام بم جیسا ہی ہوتا ہے لیکن شدت پسند اسے کسی بھی چیز یا گاڑی وغیرہ سے فوری چپکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس میں ٹائم اور ریموٹ کنٹرول بم دونوں کا استعمال ہوتا ہے۔ مقناطیسی بم بھی عام بم کی طرح ہوتا ہے مگر جتنا زیادہ بارود ہو گا اتنا ہی نقصان زیادہ ہو گا۔‘
زیارت کے ضلعی حکام بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حالیہ حملوں میں سیاحوں کی گاڑیوں میں ہونے والے دھماکے ٹائم ڈیوائس کے ذریعے کیے گئے تھے اور انھیں مقناطیس ہی کے ذریعے گاڑیوں کے نچلے حصے سے چپکایا گیا تھا۔ دونوں دھماکوں میں دو سے تین کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا۔
زیارت کے قریب دو مقامات پر کیے جانے والے حملوں میں مقناطیسی بم استعمال کیے گئے
واضح رہے کہ بلوچستان میں حالیہ چند مہینوں کے دوران شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ضلع کیچ میں گاڑی سے اتار کر 14 مسافروں کو ہلاک کر دیا گیا، گوادر میں پرل کانٹیننٹل ہوٹل پر حملہ کیا گیا، رمضان کے مہینے میں دو حملوں میں ایک مسجد اور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ اس سے قبل کوئٹہ میں بھی فرقہ وارانہ واقعات میں ہزارہ برادری کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔
بلوچستان کا ضلع زیارت سیاحت کے لیے مشہور مقام ہے جہاں قائد اعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ بھی موجود ہے اسے بھی شدت پسندوں نے ایک بار دھماکے سے اڑا دیا تھا جسے بعد ازاں دوبارہ اسی حالت میں بحال کر دیا گیا۔ زیارت اپنے ٹھنڈے موسم کی وجہ سے ملک بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور گرمیوں میں یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔