برطانیہ میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے سرگرم ایک کارکن نے لندن پولیس کے خلاف ایک تاریخی مقدمے میں دو لاکھ 30 ہزار پاؤنڈ (تین لاکھ 10 ہزار ڈالر) کا معاوضہ حاصل کرلیا ہے، جس میں ایک انڈر کوور (خفیہ) پولیس افسر نے دھوکہ دیتے ہوئے ان کے ساتھ دو سال تک تعلق قائم رکھا۔
کیٹ ولسن کا انڈر کور آفیسر مارک کینیڈی کے ساتھ ’پر زور رومانس‘ کا آغاز اس وقت ہوا جب کینیڈی کو اب غیر فعال نیشنل پبلک آرڈر انٹیلی جنس یونٹ (NPOIU) نے ماحولیات کے ایک گروپ کی جاسوسی کے لیے بھیجا، جس سے کیٹ ولسن وابستہ تھیں۔
یہ رشتہ 2005 میں ایک سال سے زیادہ عرصہ چلنے کے بعد اس وقت ختم ہوا جب کیٹ ولسن سپین منتقل ہو گئیں لیکن پانچ سال بعد کیٹ پر انکشاف ہوا کہ ان کا سابقہ عاشق جسے وہ مارک سٹون (جعلی شناخت) کے نام سے جانتی تھیں، دراصل ایک پولیس افسر تھا۔
اس انکشاف کے بعد میٹروپولیٹن اور نیشنل پولیس چیفس کونسل (این پی سی سی) کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی اور دونوں نے کیٹ ولسن کے ساتھ انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں کا اعتراف کیا اور انٹیلی جنس آپریشن کی وجہ سے انہیں پہنچنے والی ’تکلیف اور نقصان‘ کے لیے معافی مانگی ہے۔
انویسٹی گیٹری پاورز ٹریبونل نے کونسل کو حکم دیا کہ وہ کیٹ ولسن کو ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ازالے کے لیے دو لاکھ 29 ہزار 471 پاؤنڈ کی رقم ادا کریں۔
لندن پولیس کی اسسٹنٹ کمشنر فار پروفیشنلزم ہیلن بال نے ایک بیان میں کہا: ’ہم اس معاملے میں فیصلے کی شدت کو تسلیم کرتے ہیں جس نے سنگین ناکامیوں کے سلسلے کا خاکہ پیش کیا جس کی وجہ سے کینیڈی کو طویل عرصے تک مناسب نگرانی کے بغیر خفیہ مشن پر تعینات رہنے کی اجازت ملی۔‘
Mine is case number 10 on this thread. For 2022. It is January 25th. https://t.co/BsvkT6lMxU
— Kate Wilson (@fruitbatmania) January 26, 2022
انہوں نے مزید کہا: ’جنسی تعلقات قائم کرتے ہوئے کینیڈی کے اقدامات اس وقت انہیں ملنے والی تربیت اور گائیڈ لائنز کے خلاف تھے، تاہم ٹربیونل نے مشاہدہ کیا کہ اس حوالے سے تربیت ناکافی تھی اور خفیہ افسران کی جانب سے خواتین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے خطرات پر مزید غور کیا جانا چاہیے تھا۔ ہم اس فیصلے کو قبول کرتے ہیں۔‘
مزید کہا گیا: ’یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ مارک کینیڈی کی تعیناتی کے بعد سے میٹ اور قومی سطح پر خفیہ پولیسنگ میں بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے اور میں واضح کرنا چاہتی ہوں کہ یہ معاملہ کسی بھی طرح سے جدید دور کی خفیہ پولیسنگ کی عکاسی نہیں کرتا۔‘
خفیہ پولیسنگ کے لیے این پی سی سی کے سربراہ چیف کانسٹیبل ایلن پگسلی نے بھی خفیہ پولیسنگ کے طریقہ کار میں ’اہم تبدیلیوں‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’تمام خفیہ افسران کے انتخاب اور تربیت کو معیاری بنایا گیا ہے اور ان کا لائسنس ایک آزاد ادارہ یعنی کالج آف پولیسنگ جاری کرتا ہے۔‘
پگسلی نے اب تربیت کو ’زیادہ سخت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’خفیہ افسروں کی بھرتی، تربیت اور تعیناتی کے دوران ان کا موزوں اور نفسیاتی طور پر فٹ ہونا ایک اہم چیز ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’متعلقہ قوانین اور قواعد و ضوابط کے علاوہ خفیہ افسران کے طرز عمل کو قومی ضابطہ اخلاق اور کالج آف پولیسنگ کے ضابطہ اخلاق کے تحت چلایا جاتا ہے۔ خفیہ افسران اور ان کی تعیناتی کی اجازت دینے والے قانونی حدود کو سمجھتے ہیں، جس میں ضروری اور متناسب تعیناتی کرنا اور دوسروں کی نجی زندگیوں میں مداخلت کو کم سے کم رکھنے کی ضرورت بھی شامل ہیں۔‘
ان کے بقول: ’تعینات خفیہ افسروں کی نگرانی سینیئر سطح پر کی جاتی ہے اور ان تعیناتیوں کے بارے میں آزاد طور پر کام کرنے والے تحقیقاتی کمشنر کے دفتر کو آگاہ کیا جاتا ہے جو ان کی نگرانی کرتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2010 میں میٹروپولیٹن پولیس سے استعفیٰ دینے والے کینیڈی نے خفیہ تعیناتیوں کے دوران 10 دیگر خواتین کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کیے تھے، جن میں سے لیزا نامی خاتون کے ساتھ یہ تعلق چھ سال تک جاری رہا۔ لیزا کو ان کی اصل شناخت کا اس وقت علم ہوا جب انہوں نے کینیڈی کا اصل نام والا پاسپورٹ دیکھ لیا تھا۔
کیٹ ولسن کے مقدمے کی حیرت انگیز اور تاریخی کامیابی کے باوجود لیزا نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ میٹروپولیٹن پولیس نے اس حوالے سے کوئی معنی خیز تبدیلیاں کی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’انہوں نے مسلسل ایسے کسی بھی جرم کی تردید کی ہے اور ان کے بیان میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔‘
لیزا کا مزید کہنا تھا: ’وہ بنیادی طور پر جنسی تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن انویسٹی گیٹری پاورز ٹریبونل اس حوالے سے واضح ہے کہ یہ معاوضہ اس (جنسی تعلق) کے لیے ادا نہیں کیا گیا بلکہ یہ خاص طور پر انسانی حقوق اور دیگر خلاف ورزیوں کے بارے میں ہے، جس کے لیے میٹروپولیٹن پولیس ذمہ دار تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میٹروپولیٹن اس معاملے میں صرف جنسی تعلقات پر توجہ دے رہی ہے جب کہ حقیقت میں انویسٹی گیٹری پاورز ٹریبونل نے ایک جمہوری معاشرے میں اس پورے آپریشن کو غیر ضروری اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔‘
اپنے شکوک و شبہات کے باوجود لیزا انویسٹی گیٹری پاورز ٹریبونل کے فیصلے کو ایک ’حیرت انگیز اور تاریخی‘ کامیابی کے طور پر تسلیم کرتی ہیں کیونکہ یہ ادارہ عام طور پر عوامی سماعت نہیں کرتا۔
ان کے بقول: ’یہ دعویٰ کیٹ اور میری پرائیویسی میں ذاتی مداخلت کے بارے میں تھا، لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ برطانیہ میں احتجاج کی نگرانی کے پورے طریقے کے بارے میں ہے۔ انہوں نے احتجاج کرنے کے جمہوری حق میں مداخلت کی ہے۔ اس کا ہم مشرقی جرمنی یا سوویت یونین میں تصور کر سکتے ہیں لیکن یہ یہاں ہو رہا ہے۔‘
لیزا کا کہنا تھا: ’ہم میں سے آٹھ نے کیٹ کے دعوے میں ان کا ساتھ دیا اور انہوں نے ہم میں سے کسی سے بھی زیادہ حاصل کر لیا۔ ان کی جیت ہم سب کی جیت ہے۔‘
© The Independent