امریکہ میں سرجن پہلی بار ایک جینیاتی طور پر ترمیم شدہ خنزیر کے دل کی پیوندکاری ایک انسان میں کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، جس میں اہم کردار ایک پاکستانی نژاد ڈاکٹر نے بھی ادا کیا ہے۔
خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یونیورسٹی آف میری لینڈ کے میڈیکل سکول نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ یہ ’تاریخی‘ سرجری گذشتہ جمعے کو ہوئی۔
ڈاکٹروں کے مطابق اگرچہ مریض کی حالت ابھی نہیں سنبھل سکی ہے، لیکن یہ جانوروں سے انسانوں میں پیوند کاری کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔
مریض 57 سالہ ڈیوڈ بینیٹ کو انسانی دل کی پیوند کاری کے قابل نہیں سمجھا گیا تھا۔ یہ فیصلہ اکثر اس وقت کیا جاتا ہے جب وصول کنندہ کی بنیادی صحت بہت خراب ہوتی ہے۔
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق میری لینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈیوڈ بینیٹ اس سرجری سے بحفاظت صحت یاب ہو رہے ہیں اور ڈاکٹر ان کی حالت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
مریض نے سرجری سے ایک دن پہلے کہا تھا: ’یہ مرنے یا اس ٹرانسپلانٹ کے درمیان کا انتخاب تھا۔ میں جینا چاہتا ہوں، میں جانتا ہوں کہ یہ اندھیرے میں ایک گولی چلانے کی طرح ہے، لیکن یہ میری خواہش ہے۔‘
بینیٹ، جنہوں نے گذشتہ کئی ماہ بائی پاس مشین پر بستر پر گزارے ہیں، نے مزید کہا: ’میں صحت یاب ہونے کے بعد بستر سے اٹھنے کا منتظر ہوں۔‘
امریکہ میں طبی ریگولیٹر فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے نئے سال کے موقع پر سرجری کے لیے ہنگامی اجازت دی تھی۔
طبی مرکز میں کارڈیک ٹرانسپلانٹ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر بارٹلی گریفتھ نے اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کو بتایا:’یہ کام کر رہا ہے اور یہ عام لگتا ہے۔ ہم پرجوش ہیں، لیکن ہم نہیں جانتے کہ آنے والا کل ہمارے لیے کیا لائے گا۔ ایسا پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ یہ سرجری ایک پیش رفت ہے جو ہمیں اعضا کی کمی کے بحران کو حل کرنے کے ایک قدم قریب لاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم محتاط انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں لیکن ہم اس کے لیے پرامید ہیں کہ دنیا میں پہلی سرجری مستقبل میں مریضوں کے لیے ایک اہم نیا آپشن فراہم کرے گی۔
یہ سرجری زینو ٹرانسپلانٹیشن کی ایک مثال ہے، جو ایک ایسا عمل جس میں ایک انسان میں کسی غیر انسان نسل کے زندہ خلیے، ٹشو یا اعضا پیوند کیے جاتے ہیں۔
اس سرجری میں اہم کردار پاکستانی نژاد ڈاکٹر محمد محی الدین نے ادا کیا ہے، جو میری لینڈ یونیورسٹی کے میڈیکل سکول میں زینو ٹرانسپلانٹیشن پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں۔
کراچی میں ڈاؤ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹر محمد محی الدین نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ سرجری برسوں کی تحقیق کی انتہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کامیاب طریقہ کار نے ڈاکٹروں کو مستقبل کے مریضوں میں زندگی بچانے کے اس ممکنہ طریقہ کار کو بہتر بنانے میں مدد دینے کے لیے قیمتی معلومات فراہم کیں۔
بینیٹ کو عطیہ دینے والے خنزیر کا تعلق ایک ریوڑ سے تھا جس کو جینیاتی تدوین کے طریقہ کار سے گزرا گیا تھا۔
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق خنزیر کے ڈی این اے میں تین جینز ایڈٹ کیے گئے، جن کی وجہ سے انسانی جسم اس عضو کو مسترد کر سکتا تھا، جبکہ چھ انسانی جینز شامل کیے گئے جو دل کو قبول کرنے کا سبب بنتے تھے۔
دل کو نکال کر ایک خاص ڈبے میں رکھا جاتا تھا جو اسے غذائی اجزا اور ہارمون فراہم کرتا رہا۔ اسے اعضا محفوظ رکھنے والی مشین میں رکھا گیا تھا اور ٹیم نے مدافعتی نظام کو دبانے کے لیے روایتی اینٹی ریجیکشن ادویات کے ساتھ کینیکسا فارماسیوٹیکلز کی بنائی ہوئی تجرباتی نئی دوا کا بھی استعمال کیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت تقریباً ایک لاکھ دس ہزار امریکی اعضا کی پیوند کاری کے منتظر ہیں اور ہر سال چھ ہزار سے زائد مریض اعضا کی پیوند کاری سے قبل ہی انتقال کر جاتے ہیں۔
طلب کو پورا کرنے کے لیے ڈاکٹر طویل عرصے سے زینو ٹرانسپلانٹیشن یا کراس سپیشیز اعضا کے عطیے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ تجربات 17 ویں صدی سے ہو رہے ہیں۔
ابتدائی تحقیق میں پرائمیٹس سے اعضا لینے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ مثال کے طور پر، 1984 میں ایک بن مانس کے دل کو ایک نوزائیدہ بچے میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا جسے ’بے بی فائی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، لیکن بچہ صرف 20 دن زندہ رہا۔
آج انسانوں میں خنزیر کے دل کے والو وسیع پیمانے پر استعمال کیے جاتے ہیں اور ان کی جلد انسانوں کی جلی ہوئی جلد پر لگائی جاتی ہے۔