افغانستان کی ہڈیوں کو جما دینے والی سردی میں پہاڑوں کو کھود کر قیمتی پتھر زمرد نکالنے والے اسرار مرادی پہلے پولیس افسر ہوا کرتے تھے۔
وہ کان میں کام کرنے والے کئی کان کنوں میں سے ایک ہیں جو یہاں سے خزانہ تلاش کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کابل سے 80 کلو میٹر شمال مشرق میں واقع وادی مکینی کی اس کان سے نکلنے والے زمرد بشمکل مونگ پھلی کے دانوں سے بڑے ہوں گے لیکن وہ اس علاقے میں غربت کے مکمل غلبے کو روکنے کے لیے کافی ہیں۔
مرادی کا کہنا ہے کہ ’جو زمرد ہمیں ملتے ہیں ہم انہیں 50، 80 یا 100 سے 150 افغانی میں فروخت کر دیتے ہیں۔‘
ایک زمانے میں مرادی مکینی وادی کے ہمسائے میں موجود ضلع پریان میں انسداد دہشت گردی پولیس کے سربراہ تھے۔
طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد مرادی نے ابتدائی طور پر کابل کی گلیوں میں کپڑے فروخت کرنے کا کام شروع کیا۔ لیکن ان کے مطابق یہ کام نہیں چل سکا۔ جس کے بعد وہ پہاڑوں کا رخ کرنے پر مجبور ہو گئے۔
پنجشیر صوبے میں مقامی افراد یہاں زمرد کی موجودگی سے ہزاروں سال سے واقف ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس علاقے میں منظم کان کنی 1970 کی دہائی میں شروع ہوئی لیکن یہاں ملنے والے زمرد کا مقابلہ کولمبین زمرد سے کیا جاتا ہے جس کی دنیا میں سب سے زیادہ مانگ ہے۔
25 سالہ مرادی یہاں کام کرنے والے اکیلے ایسے فرد نہیں جو اس سے قبل سرکاری نوکری کر چکے ہیں۔
45 سالہ گلاب الدین محمدی جو اس سے قبل افغان فوج میں ماہانہ 35 ہزار افغانی کی تنخواہ لیتے تھے، وہ بھی اس کان میں زمرد نکالنے کا کام کرتے ہیں۔
گلاب الدین کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس رہنے کے لیے مناسب جگہ نہیں ہے اور کئی لوگ خیموں میں رہ رہے ہیں۔ کبھی بارش ہوتی یا کبھی برف باری ہوتی تو ہمیں بہت مشکل پیش آتی ہے۔‘
اس کان میں ہر شفٹ کے دوران 10 کان کن کام کرتے ہیں جس میں وہ اس چمکدار پتھر کی تلاش میں 500 میٹر سے زائد کی کھدائی کرتے ہیں۔
اس کان سے زمرد کی تلاش تو ایک مشکل کام ہے ہی لیکن ان کان کنوں کو وادی سے یہاں پہنچنے تک بھی دو گھنٹے کا کٹھن اور مشکل سفر کرنا پڑتا ہے۔
یہاں کام کرنے والے کئی افراد صرف روزی روٹی کمانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کئی سابقہ سرکاری ملازمین سابقہ حکومت کے لیے کام کرنے کے نتیجے میں لاحق خطرے سے بچنے کے لیے یہاں پہنچے ہیں۔