صوبہ خیبر پختونخوا میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی اور وقار نسواں کے قومی کمیشن برائے خواتین (این سی ایس ڈبلیو )کی ایک تحقیق میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ خیبر پختونخوا میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے سب سے زیادہ اس صوبے کی خواتین متاثر ہوئی ہیں۔
اس موضوع پر مزید روشنی ڈالنے کے لیے دونوں متذکرہ اداروں نے دو فروری کو دارالحکومت پشاور میں ایک روزہ سیمینار منعقد کیا۔ جس کا مقصد حکومتی و غیر حکومتی اداروں سے تعلق رکھنےوالے مرد و خواتین، سربراہان و ملازمین کو اس تحقیق سے آگاہ کرنا ہے۔
اس کے علاوہ اس سیمنار کا مقصد خواتین کو محفوظ بنانے، ان کی ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی اموات کی شرح کم کرنے، ان کے مسائل کم کرنے اور وسائل تک ان کی رسائی آسان اور ممکن بنانے کے لیے ان کی تجاویز لینا بھی تھا۔
سیمینار میں کہا گیا کہ اگر 2030 تک ماحول کو کنٹرول نہ کیا گیا تو دنیا میں جو ماحولیاتی تبدیلی آرہی ہے اس نے بحران کی شکل اختیار کر لینی ہے۔ جبکہ پاکستان میں یہ خطرے کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
مزید بتایا گیا کہ پاکستان میں قدرتی آفات کثرت سے آنے کی وجہ سے اس کو دنیا کے ان دس ممالک کی فہرست میں رکھا گیا ہے جہاں خطرات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
سیمینار میں قومی کمیشن برائے وقار نسواں کی سربراہ نیلوفر بختیار نے کہا کہ ’ہر سانحے کے بعد عورت ہی متاثر ہوتی ہے، چاہے سیلاب کی وجہ سے گھر بہہ جائے، یا کرونا (کورونا) وبا کی وجہ سے کسی آدمی کو نوکری سے نکالا جائے۔ ‘
انہوں نے کہا کہ ’کرونا کے دوران کئی گھریلو تشدد کے واقعات اور طلاق کے کیسز میں بنیادی وجہ کسی مرد کی نوکری کا ختم ہونا یا مالی حالات خراب ہوجانا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیمینار میں بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا میں پردے کے رواج کی وجہ سے خواتین نہ تو گھروں سے باہر زیادہ نکلتی ہیں اور نہ وہ کسی ہنگامی حالت کی صورت میں راستوں کا تعین کر سکتی ہیں۔
مزیدبتایا گیا کہ سیلاب میں زیادہ خواتین کی موت اس لیے ہوتی ہے کہ ان کو تیرنا نہیں آتا اور زلزلے میں خواتین کی ہلاکتیں اس لیے ہوتی ہیں کہ پردے کی وجہ سے وہ کسی محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی بجائے گھر پر رہتی ہیں۔
اس سیمینار کے ایک مقرر سلمان زیدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب قحط سالی آتی ہے اور مہنگائی آتی ہے تو گھروں میں آمدن کم ہوجاتی ہے۔ نتیجتاً خواتین اپنے حصے کی خوراک گھر کے دوسرے افراد کو دے دیتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اموات کی اس شرح میں مستقبل میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ ان کے مطابق ’خیبر پختونخوا کے 25 اضلاع ایسے ہیں جہاں سیلاب کا بہت زیادہ خدشہ ہے۔ جب کہ اس صوبے کے چھ اضلاع ایسے ہیں جہاں زلزلے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔‘
سلمان زیدی کے مطابق ’جب سیلاب آتے ہیں تو اکثر ممالک میں دیکھا گیا ہے کہ خواتین کو بروقت اطلاع نہیں پہنچتی۔ شایداس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس فون نہیں ہوتے یا ان کو خبر نہیں پہنچتی، خبر مردوں تک پہنچتی ہے۔‘
اسی سیمنار کی ایک مقرر شبانہ عارف جو کہ بنیادی طور پر قومی کمیشن برائے وقار نسواں کے ساتھ منسلک ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ماحولیاتی تبدیلیوں اور آفات کی وجہ سے ‘مائیگریشن’ ہوتی ہے، جس سے زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’خیبر پختونخوا میں پردہ کیا جاتا ہے، تو اگر ایک پردہ کرنے والی خاتون کیمپ میں جائے گی تو وہاں وہ کیسے بیٹھے گی؟ اس کو ایک چھوٹے سے ٹینٹ میں رہنا پڑے گا، جہاں اس کو باتھ روم ، نہانے اور ہر کام کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔ تاکہ جب باقی لوگ نہ ہوں تو تب وہ یہ تمام کام کر سکیں۔‘
سیمینار کے آخر میں خواتین کو بااختیار بنانے، ان کی وسائل تک رسائی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ان کی اموات کی شرح کم کرنے کی تدابیر اور تجاویز پر بات کی گئی۔ جس میں حکومتی و صوبائی اسمبلی کے اراکین سمیت میڈیا و دیگر اداروں جیسے پی اینڈ ڈی، فوڈ اتھارٹی ڈپارٹمنٹ، واٹر ڈپارٹمنٹ اور کئی دوسرے متعلقہ محکموں نے حصہ لیا۔