وکلا کے گاؤن میں بےمعنی جیب: سائل کیوں فیس برداشت نہیں کر پا رہے؟

اگر ’خدا کسی کو بھی عدالت کا منہ نہ دکھائے‘ جیسا منفی تاثر دور کرنا ہے تو ڈاکٹروں اور دیگر پیشوں میں مقرر فیس کی طرح کیا وکیلوں کے نرخ طے نہیں ہونے چاہیں۔

(پکسابے)

پاکستانی عدالتوں میں مختلف نوعیت کے مقدمات دائر کرنے پر ایک عام سائل کو سرکاری نرخ کے مطابق اتنے ہی پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں جتنے کہ کچہری میں کسی 'ڈھابے' پر بیٹھ کر ایک پیالی چائے پینے کا خرچہ ہوتا ہے۔

لیکن اپنے حقوق کے حصول کے لیے عدالتوں کا رخ کرنے والے شہریوں سے اگر پوچھا جائے کہ ان کا یہ تجربہ کیسا رہا تو وہ ساری روداد ایک ہی جملے میں بیان کرتے ہیں کہ ’خدا کسی کو بھی عدالت کا منہ نہ دکھائے۔‘

ایسا کیوں ہے؟

اس کی وجہ 58 سال کی سائلہ شبانہ بی بی بیان کرتی ہیں۔

’پانچ سے چھ مہینے عدالتوں کے چکروں نے تو مجھے خون کے آنسو رلا دیا۔‘

شبانہ نے اپنے مکان کی فروخت رکوانے کے لیے سال 2018 میں اپنے سابق شوہر کے خلاف کراچی کی ایک دیوانی عدالت میں دعویٰ دائر کیا تھا۔ بس! وہ کہتی ہیں کہ یہیں سے ایک ایسی قانونی جنگ کا آغاز ہوا جسے وہ بمشکل چند ماہ تک ہی جاری رکھ سکیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر آپ (عدالت میں) مقدمہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر یہ سمجھیں کہ اپنے گھر اور بچوں کےاخراجات کو ایک طرف رکھ کر آپ کو محض کیس کے اخراجات، سرکاری عملے کے 'چائے پانی' اور وکیلوں کی فیس ادا کرنے سے ہی فرصت نہیں ملے گی۔‘

شادی کے بعد شبانہ بی بی اوران کے شوہر نے مل کر 200گز پر مشتمل ایک مکان سرجانی کے علاقے میں خریدا تھا۔ اس عمارت کی 90 فیصد رقم شبانہ بی بی کے بقول انہوں نے اپنی ماہانہ آمدن سے ادا کی تھی جبکہ ان کے شوہر نے صرف 10 فیصد رقم ڈالی تھی۔

لیکن طلاق کے اپنے حصے کی رقم کی وصولی کی خاطر ان کے سابق شوہر نے جب مکان کو بیچنے کا ارادہ کیا تو شبانہ اپنے بچوں کے سر کی چھت بچانے کے لیے عدالت جا پہنچیں۔

ان کا یہ تجربہ بہت تلخ رہا۔

’پہلے تو یہ ہوا کہ یکے بعد دیگرے تین وکیلوں نے میرا مقدمہ لیا اور اپنی طے شدہ فیس ایڈوانس میں وصول کر لی لیکن اس کے بعد وہ عدالت میں دکھائی ہی نہیں دیے۔ انہوں نے مجھ سے بغیر کسی کام کے ساڑھے چھ لاکھ روپے اینٹھے۔ بالآخر میں نے چوتھا وکیل کیا جس سے فیس اڑھائی لاکھ روپے طے ہوئی۔ آخرکار مجھے میرے مکان کی فروخت کے خلاف عدالت سے عارضی حکم امتنیٰ مل گیا۔‘

لیکن چند ماہ بعد ہی شبانہ بی بی مقدمے کو آگے بڑھانے کی بجائے سابق شوہر کے ساتھ 'عدالت سے باہر' سمجھوتہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ وکیلوں کے مزید اخراجات برداشت نہیں کر پا رہی تھیں۔

تین برس گزر چکے ہیں لیکن معاملہ اب بھی کھٹائی میں پڑا ہے کیونکہ نہ تو 'عدالت سے باہر' کوئی سمجھوتہ ہوسکا نہ ہی عدالت کے اندر کوئی پیش رفت ہوسکی۔

کسی مقدمے کی فیس کیا ہوتی ہے؟

ہر سال کراچی بار ایسوسی ایشن ایک سالانہ ڈائری چھپوا کر وکیلوں کو فراہم کرتی ہیں تاکہ وہ اپنے مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پر یاداشت درج کرسکیں۔

میری نظر سے اس ڈائری کے چند صفحات گزرے جن پر حیرت انگیز طور پر فیسوں سے متعلق معلومات تحریر تھیں۔ اس میں حکومت کی جانب سے مقرر کردہ مختلف نوعیت کے کیس دائر کرنے کی فیسوں کا میزانیہ درج تھا۔

کورٹ فیس کا میزانیہ

میزانیہ کے مطابق نچلی عدالتوں (یعنی کچہری میں قائم) دیوانی اور فوجداری عدالتوں میں پسند کی شادی سے لے کر طلاق اور زمین کی ملکیت کادعویٰ دائر کرنے کی فیس جو ایک سائل کو خرچ کرنا ہے وہ محض 17 روپے ہیں ۔ جس میں 15 روپے دعوے اور 2 روپے حلف نامے کی فیس مقرر ہے۔

اسی طرح عدالت عالیہ (ہائی کورٹ) میں آئینی درخواست دائر کرنے کی فیس 100 روپے ہے جبکہ اضافی طور پر وکیل کے وکالت نامے کی فیس پانچ روپے اور سائل کی جانب سے حلف نامے کی فیس 30 روپے درج ہے۔

آپ کو یہ جان کرحیرت ہوگی کہ ملک کی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ آف پاکستان) میں بھی کیس دائر کرنا بہت مہنگا نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کرنے کی فیس 200 روپے مقرر ہے جبکہ نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کی فیس 15ہزار روپے ہے۔

’ملزم عدالت کا چہیتا بچہ ہے‘

سینیئر کرمنل مقدمات دیکھنے والے وکیل محمد فاروق کہتے ہیں کہ برطانوی کرمنل جیورسپروڈنس میں لکھا ہے کہ 'ملزم عدالت کا چہیتا بچہ ہے۔‘

انہوں نے بتایا 'چونکہ پاکستان میں برطانوی طرز کا آئین اور قانون نافذ ہے اسی لیے حکومت پاکستان کے قوانین کے مطابق کسی کرمنل کیس میں ملوث ملزمان کی جانب سے اپنے دفاع کے لیے مقدمہ دائر کرنے کی کوئی فیس وصول نہیں کی جائے گی۔‘

چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ سجائے محمد فاروق مزید کہتے ہیں کہ 'اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر کوئی ملزم کسی وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی مالی استاعت نہیں رکھتا تو اسے دفاع کے لیے سرکاری وکیل دیا جاتا ہے۔'

پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کے مالک اور بزنس مین کے بیٹے شاہ رخ جتوئی نے 25 دسمبر 2012 کو ایک معمولی تنازعہ پر اپنے ہمسائے پولیس ڈی ایس پی اورنگزیب خان کے جواں سال بیٹے شاہ زیب خان کو مبینہ طور پر سرعام گولیاں مار کر کراچی کے علاقے ڈیفنس میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

ان کے خاندان کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ شاہ رخ جتوئی کی دبئی سے گرفتاری سے لے کر مقدمے کی سماعت اور ان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سزائے موت سنائے جانے سے لے کر سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے ان کی سزا کی عمر قید میں تبدیلی تک ہونے والے اخراجات کا تخمینہ کروڑوں روپوں میں ہے۔

وکیل کی جیب اس کی پشت پر؟

سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج فیصل احمدصدیقی کہتے ہیں کہ روایت کے مطابق صدیوں پہلے انگلستان (انگلینڈ) میں بادشاہ کی طرف سے چند پڑھے لکھے لوگوں کو مقرر کیا گیا تھاکہ وہ عوامی شکایات دربارمیں پیش کرسکیں۔

وہ لوگ یہ فرائض مقدس جان کر بغیر کسی فیس کے رضاکارانہ طور پر سرانجام دیتے تھے لیکن بعد میں طے پایا کہ ایسے افراد کی پشت پر ایک جیب ہوگی جس میں اگر کوئی سائل حسب استطاعت کچھ رقم (سکے) ڈال سکے گا جسے بنا دیکھے بخوشی قبول کر لیا جائے گا۔

بعد میں جب قانون کا باقاعدہ شعبہ قائم ہوا تو عدالتیں بنیں اور قانون کی تعلیم کے لیے لندن میں سکول آف لا سے بیسٹرز پیدا کیے توجج اور وکیل کے لیے کالے رنگ کا یونیفارم متعارف کرایاگیا۔

وکلا کے کوٹ یا 'گاون' کی پشت پر ایک ڈوری کے ساتھ چھوٹی سی 'علامتی جیب' بھی لٹکا دی گئی تاکہ یہ روایت اور احساس زندہ رہے کہ عوام کے لیے انصاف کے حصول کی کاوش ایک مقدس پیشہ ہی رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بھی وکلا کے خصوصا وہ جو اعلیٰ عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں، گاون کی پشت پر ایک چھوٹی سی جیب ہوتی ہے۔ اگر گذشتہ صدیوں میں وکالت کے شعبے میں جدت آئی ہے لیکن یہ جیب محض ایک 'علامت' ہی بن کر رہ گئی ہے۔

کیا وکلا کی فیس مقرر ہے؟

پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے عہدیداران کے مطابق پاکستان میں مقدمات دائر کرنے کی عدالتی فیس تو حکومت کی جانب سے مقررکی گئی ہے تاہم وکلا اپنے مؤکل سے کتنی فیس لیں گے اس کا تعین نہ تو سرکاری طور پر کیاگیا ہے اور نہ وکلا کی نمائندگی کرنے والے ان اداروں کی جانب سے کوئی ضابطہ اخلاق بنایاگیا ہے۔

پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن وکالت کے شعبے کے لیے ضابطہ اخلاق اور ججوں کی تعیناتی سمیت مختلف فرائض کی نگرانی کرتے ہیں تاہم یہ دونوں اعلیٰ ادارے گذشتہ 70 سالوں میں وکلا کی پروفیشنل فیس مقرر کرنے کے معاملے پر اپنی معذوری ظاہر کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کہتے ہیں کہ ’یہ ہو نہیں سکتا۔ یہ کیس کی نوعیت پر منحصر ہے۔ کسی کیس کی 10 ہزار فیس بھی ہوتی ہے، کسی کیس کی 10 کروڑ روپے بھی فیس ہوتی ہے۔ جتنا کوئی ٹائم دے گا اتنی فیس ہوگی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’جتنا آپ کسی سے کام لیتے ہیں اتنی ہی فیس دینی پڑتی ہے۔ کسی مقدمے میں مہینے لگتے ہیں کسی پر سال۔‘

تاہم کیس جیتنے کی بجائے سائلین زندگی ہار جاتے ہیں۔ لیکن صرف امیر لوگ ہی اتنے پیسے خرچ کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں جبکہ غریبوں کے لیے یہ اخراجات جان لیوا بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔

کراچی میں 18 دسمبر 2018 کے ایک قدرے سرد صبح تھی جب 54 سالہ رحمت اللہ شیخ زمین کی ملکیت سے متعلق ایک مقدمے کی شنوائی کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔ چند افراد نے مبینہ طور پر سرجانی میں ان کی 25 ایکڑ اراضی پر غیرقانونی قبضہ کر رکھا تھا۔

اس سے پہلے کہ فاضل عدالت کے جج کی جانب سے کیس کی شنوائی کے لیے کوئی فیصلہ کیا جاتا رحمت اللہ کو کمرہ عدالت میں ہی دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔

ان کے وکیل شاہ محمد میتلو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’رحمت اللہ دو، تین سال کے دوران وکیلوں کی فیسیں اور دیگر عدالتی اخراجات کی مد میں تقریبا ایک کروڑ روپے خرچ کرچکے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جب وہ میرے پاس آیا تواس کے پاس عدالت میں ہونے والے روزمرہ اخراجات کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ چھوٹے موٹے خرچے میں خود اپنی جیب سے کرتا تھا کیونکہ میں اس کا مقدمہ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر لڑ رہا تھا۔‘

’سستے عدل کی تحریک مہنگی پڑ رہی ہے‘

ملک کی عدلیہ گذشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران اپنے 'جوڈیشل ایکٹوازم' کی وجہ سے مسلسل میڈیاکی شہ سرخیوں میں رہی ہے۔ اس ایکٹوازم کا آغاز نومبر 2007 میں ہوا جب اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور وکلا نے اس وقت کے فوجی آمر صدر جنرل پرویز مشرف کے آئین کو معطل کرنے کے عمل کے خلاف تاریخی ملک گیر تحریک شروع کی۔

تیرہ ماہ تک وکلا ہر جمعرات ملک کی اعلیٰ سے لے کر ماتحت عدالتوں میں ہفتہ وار ہڑتال کے دوران عدالتی کارروائیوں کا بائیکاٹ کرتے رہے۔ اس کے نتیجے میں زیرالتوا کیسز کی تعداد لاکھوں میں ہوگئی تھی۔

تاہم معزول ججوں اور وکلا نے اس وعدے کے ساتھ عوام کو تحریک میں ان کا ساتھ دینے کی درخواست دی کہ ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی حاصل ہونے کے بعد 'بینچ اور بار' مل کر انہیں سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔

کیا یہ 'سستا اور فوری' انصاف ممکن ہوا؟

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے شریک چیئرمین اسد اقبال بٹ کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے عدلیہ کی بحالی کے دوران سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے عوام سے کیے جانے والے وعدے وفا نہیں کیے گئے۔

ان کے مطابق 'چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کے بعد آنے والے چیف جسٹسز کی جانب سے اپنے گھر کو بہتر کرنے کے حوالے سے کوئی خاطرخواہ کام نہیں کیاگیا ہےجس کے نتیجے میں عوام کے لیے سستا اور فوری انصاف آج بھی محض ایک نعرہ ہی ہے۔‘ نتیجہ ایک طرف لاکھوں سائلین بحالت مجبوری انصاف حاصل کرنے کی خاطر بھاری رقم خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔

دوسری طرف شبانہ بی بی جیسے لوگ مزید رقم نہ ہونے کے باعث 'آوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ' پر مجبور ہیں یا پھر کمرہ عدالت میں جان کھو دینے والے رحمت اللہ کے خاندان کی طرح وکلا کی فیسیں نہ ادا کرسکنے کی وجہ سے کیس مزید نہ چلنے کے صورت میں انصاف کی فراہمی کی امید کھو چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت