تازہ ترین سہ ماہی رپورٹ کے مطابق فیس بک اور وٹس ایپ کی ملکیتی کمپنی ’میٹا‘ کے سی ای او مارک زکربرگ کو کمپنی کے حصص کی قیمت گرنے سے مجموعی طور پر 29 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
کمپنی کی جانب سے توقع سے کم آمدنی کے اعداد و شمار اور 18 سالہ تاریخ میں پہلی بار فیس بک کے صارفین کی تعداد میں کمی کے اعلان کے بعد تین فروری کو میٹا کے حصص ایک گھنٹے کی ٹریڈنگ میں تقریباً 25 فیصد تک گر گئے۔
فیس بک کے فعال صارفین کی تعداد میں یومیہ دس لاکھ کی کمی کے باعث اس کے مجموعی صارفین کی تعداد کم ہوکر 1.929 ارب ہوگئی، جس کے لیے میٹا نے ٹک ٹاک اور یوٹیوب جیسی حریف کمپنیوں سے مقابلے بازی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
کمپنی کے سی ای اور زکربرگ نے اس صورت حال پر کہا: ’ٹیمیں کافی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور مصنوعات بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’یہاں جو چیز کسی حد تک منفرد ہے وہ یہ ہے کہ ٹک ٹاک پہلے سے ہی ایک بڑا مدمقابل ہے جو کافی تیزی سے بڑھتا بھی جا رہا ہے۔‘
خراب کارکردگی نے کمپنی کی سٹاک مارکیٹ میں قدر کو تقریباً 200 ارب ڈالر کم کر دیا، جس کے نتیجے میں زکربرگ کی قسمت کے ستارے بھی گردش میں آگئے۔ ان کا زیادہ تر انحصار میٹا سٹاک میں منسلک ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’بلومبرگ بلینیئرز انڈیکس‘ کے مطابق زکربرگ کی دنیا کے ساتویں امیر ترین شخص کے طور پر درجہ بندی کی گئی تھی اور حصص کی قیمت میں حالیہ کمی سے قبل ان کی مجموعی دولت کی مالیت کا تخمینہ 121 ارب ڈالر تھا۔
زکربرگ نے کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ میٹاورس پر کمپنی کی نئی توجہ آمدنی اور ترقی کے نئے سلسلے کے لیے ایک وسیع موقع ثابت ہوگی، حالانکہ کچھ لوگ اب بھی اس ورچوئل دنیا کے وعدے کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
دنیا کے امیر ترین افراد میں سرفہرست ایلون مسک نے حال ہی میں میٹاورس کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ایک ایسی غیر روایتی ٹیکنالوجی ہے، جس کی روایتی سوشل میڈیا پر خاص کشش نہیں ہوگی۔
انہوں نے قدامت پسند طنزیہ ویب سائٹ ’دا بے بی لون بی‘ (The Babylon Bee) کو ایک انٹرویو میں بتایا: ’مجھے نہیں معلوم کہ آیا مجھے لازمی طور پر اس میٹاورس جیسی چیز کی ضرورت ہے، حالانکہ لوگ مجھ سے اس کے بارے میں بہت زیادہ بات کرتے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی شخص سارا دن اپنے چہرے پر سکرین چڑھا کر گھوم سکتا ہے۔‘
© The Independent