راجیو یادیو 2000 کی دہائی کے آخر میں ایک نوعمر دستاویزی فلم ساز تھے جب انہوں نے شمالی بھارت میں ایک ممتاز ہندو پنڈت کو شعلہ بیان تقریریں کرتے ہوئے فلمایا۔
زعفرانی لباس میں ملبوس یہ راہب یوگی آدتیہ ناتھ آگے چل کر بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اترپردیش کے وزیر اعلی بنے، جہاں اس ماہ اہم انتخابات ہونے والے ہیں اور جہاں 20 کروڑ شہری آباد ہیں۔
رائے شماری پولز میں معلوم ہوا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کے اقتدار میں واپس آنے کے بہت امکانات ہیں۔
کئی مشکلات کے باوجود 35 سالہ یادیو آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑ رہے ہیں اور ہندو سخت گیروں کی جانب سے ’نفرت کی سیاست‘ کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔
جب سے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) 2014 میں اقتدار میں آئی ہے تب سے یہ مسئلہ بھارت کی سیاست میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
نریندر مودی اور آدتیہ ناتھ سمیت بی جے پی کے دیگر رہنماؤں نے اپنے ریکارڈ کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امتیازی سلوک نہیں کرتے اور ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جن سے تمام بھارتی شہریوں کو فائدہ پہنچے، تاہم اقلیتی برادریوں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے جگہ تنگ ہوتی جا رہی ہے۔
مرکزی حزب اختلاف کانگریس پارٹی اور یادیو جیسے کارکنوں کا مؤقف ہے کہ ہندو اکثریت کو مقدم رکھ کر وہ (بے جے پی) تفرقہ ڈالنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔
حالیہ برسوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی تشدد میں تبدیل ہوگئی ہے جس کی زد میں اترپردیش بھی آیا ہے جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔
اپنے آبائی شہر اعظم گڑھ میں مٹی اور اینٹوں سے بنے گھر کی چھت پر بیٹھے یادیو نے روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ’صرف کارکن بن کر آواز اٹھانا ہی کافی نہیں۔‘
مقامی انتخابات میں ان کے حریفوں کا تعلق بی جے پی، کانگریس اور علاقائی سماج وادی پارٹی سے ہے۔
یادیو کا گروپ رہائی منچ یا پلیٹ فارم فار لبریشن مسلمانوں اور دلتوں کو قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے مشہور ہے۔ مسلمان بھارت میں آبادی کا تقریباً 14 فیصد ہیں اور دلت بھارت میں نچلی ذات سمجھے جاتے ہیں۔
اس گروپ نے کہا کہ 2019 میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف ملک گیر مظاہروں کے دوران اس کے دو ارکان کو پولیس نے گرفتار کیا ہے۔ اس قانون کے متعلق مسلمانوں کا کہنا تھا کہ یہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے لیے لایا گیا ہے۔
ریاستی پولیس سربراہ نے اس وقت صحافیوں کو بتایا کہ رہائی منچ نے احتجاج کے دوران تشدد کو بھڑکایا تھا، جس کی وہ تردید کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نمائندوں نے ان قوانین کے خلاف مظاہروں میں ہونے والی گرفتاریوں اور سینکڑوں مظاہرین اور کارکنوں پر مبینہ حملے کی مذمت کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2024 میں قومی انتخابات سے قبل اترپردیش اور چار دیگر ریاستوں میں آئندہ انتخابات بی جے پی کی مقبولیت کا ایک اہم پیمانہ ہیں۔
یہ انتخابات یادیو کے لیے ادتیہ ناتھ کا متبادل فراہم کرنے کا ایک موقع ہیں، جن کو کچھ سیاسی تجزیہ کار مودی کے ممکنہ جانشین کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یادیو کا کہنا ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ پسماندہ ذاتوں پر بھی حکومتی ظلم ہو رہا ہے۔
ان برادریوں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ ان کے ساتھ پولیس کے رویے کو بھی اجاگر کریں گے اور دیہی علاقے میں کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے بھی لڑیں گے۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ کے ترجمان نے اس خیال کو مسترد کردیا کہ کسی بھی برادری کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
راکیش ترپاٹھی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ہر آواز کو جگہ دی ہے۔
یادیو طویل عرصے سے آدتیہ ناتھ کے پہلو میں کانٹا رہے ہیں۔ جب آدتیہ ناتھ 2017 میں وزیر اعلیٰ بنے تو نیوز چینلوں نے یادیو کی دستاویزی فلوں کے وہ کلپ نشر کیے جن میں وہ اشتعال انگیز تقاریر کر رہے تھے۔
یہ ویڈیوز آدتیہ ناتھ کے خلاف طویل عرصے سے جاری نفرت انگیز تقریر کے مقدمے میں ثبوت کا حصہ ہیں جو سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔
سال 2007 میں مشرقی قصبے گورکھپور میں فلمائی گئی اور بعد میں متعدد ٹی وی چینلوں پر نشر ہونے والی ایک ویڈیو میں آدتیہ ناتھ ایک ہندو لڑکے کی موت کے ردعمل میں تشدد کو بڑھاوا دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کی اس تقریر کے بعد شہر میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
یادیو کا کہنا ہے کہ ’وہ جو زبان استعمال کر رہے تھے وہ ہندو قوم پرستی کی انتہائی شکل تھی۔‘
بی جے پی عہدیداروں اور آدتیہ ناتھ کے نمائندوں سے ویڈیو پر تبصرہ کرنے کی درخواست کی گئی لیکن انہوں نے ان درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔