الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کے رہنما فیصل واوڈا کو نااہل قرار دیتے ہوئے سینیٹ کی نشست کا نوٹیفیکیشن واپس لینے کا حکم بھی جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق اب فیصل واوڈا اب سینیٹر بھی نہیں رہیں گے۔
الیکشن کمیشن نے 23 دسمبر 2021 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ فیصل واڈا نے الیکشن کمیشن کو اپنی شہریت سے متعلق غلط بیان حلفی جمع کرایا تھا۔
مختصر فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کو تاحیات نااہل کیا ہے، ان کی نااہلی آرٹیکل 62 ون ایف کےتحت ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ فیصل واوڈا اب ’صادق و امین‘ نہیں رہے۔
بدھ کے روز چیف الیکشن کمیشن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کا مختصر فیصلہ سنایا۔ چیف الیکشن کمشنر نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ دو ماہ میں فیصل واوڈا کو وصول کردہ تنخواہیں اور مراعات واپس کریں۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ فیصل واوڈا نے اپنا جرم چھپانے کے لیے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیا، تاہم فیصلے میں درج ہے کہ فیصل واوڈا فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔
کیس کا سیاق و سباق
دو سال قبل 21 جنوری 2020 کو الیکشن کمیشن میں مخالف امیدوار عبدالقادر مندوخیل، میاں فیصل اور آصف محمود کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ ان میں موقف اپنایا گیا کہ فیصل واوڈا نے عام انتخابات 2018 میں کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت غلط حلف نامہ جمع کرایا اور قومی اسمبلی کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت اپنی امریکی شہریت چھپائی۔
اس کے علاوہ فیصلے کے مطابق فیصل واوڈا نے جائدادیں خریدنے کی منی ٹریل نہیں دی، ان کے ذرائع چھپائے اور ٹیکس بھی ادا نہیں کیا۔
دو برس قبل تین فروری 2020 کو ان درخواستوں پر سماعت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے متعدد سماعتوں پر فیصل واوڈا سے دہری شہریت چھوڑنے کی تاریخ پوچھی لیکن فیصل واوڈا نے اس حوالے سے کبھی جواب نہیں دیا۔ فیصل واوڈا نے الیکشن کمیشن کے سامنے کہا تھا کہ وہ پیدائشی امریکی شہری ہیں۔
عام انتخابات میں ریٹرننگ افسر کے سامنے پیش ہوتے وقت انھوں نے منسوخ شدہ پاسپورٹ دکھایا تو آر او نے انھیں کلیئر کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سماعتوں کے دوران الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا سے سوال کیا تھا کہ آپ کے پاس امریکہ کی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ تو ہو گا۔ فیصل وواڈا نے جواب دیا کہ انھیں پاکستان یا امریکہ کے قانونی پیپر ورک کا زیادہ علم نہیں، اس حوالے سے وہ کم معلومات رکھتے ہیں۔
درخواست گزاروں نے الیکشن کمیشن میں سرٹیفکیٹ کی فوٹو کاپی جمع کرائی جس کے مطابق فیصل واوڈا نے 25 جون 2018 کو دہری شہریت چھوڑی۔ جبکہ فیصل واوڈا کے مطابق یہ تاریخ مئی کے مہینے کی تھی۔ فیصل واوڈا نے درخواستوں گزاروں کی جانب سے جمع کرائے گئے سرٹفیکیٹ کی کاپی یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ اس طرح کی کئی فوٹو کاپیاں وائرل ہیں۔‘
درخواست گزاروں نے الیکشن کمیشن میں یہ موقف بھی اپنایا کہ امریکی قونصل خانہ فیصل واوڈا کی جانب سے شہریت چھوڑنے کا سرٹیفیکیٹ انہیں نہیں دیتا، لہٰذا الیکشن کمیشن امریکی قونصل خانے سے اس حوالے سے معلوم کرے، جس پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ قونصل خانہ ان کے ماتحت نہیں اس لیے کمیشن ان کوہدایت جاری نہیں کر سکتا۔
فیصل واوڈا نے سینیٹر منتخب ہونے کے بعد یہ بھی استدعا کی کہ کیونکہ یہ درخواستیں اس وقت کی ہیں جب وہ رکن قومی اسمبلی تھے، لہٰذا انھیں مسترد کیا جائے۔
فیصل واوڈا جب سینیٹر منتخب ہوئے تو الیکشن کمیشن نے مخالف درخواست گزاروں کی وہ درخواست مسترد کر دی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ فیصل واوڈا کی بطور سینیٹر کامیابی کا نوٹی فیکشن روکا جائے۔ الیکشن کمیشن نے مرکزی کیس کا حتمی فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے درخواست مسترد کی تھی۔
واضح رہے فیصل واوڈا نااہلی کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت رہا ہے۔ فیصل واوڈا کے قومی اسمبلی سے استعفے اور سینیٹر منتخب ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجواتے ہوئے الیکشن کمیشن کو کیس کا فیصلہ کرنے کا کہا تھا۔