بھارت کے شمال میں واقع اتر پردیش آبادی کے لحاظ سے اس ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ اس ریاست کی موجودہ آبادی 22 سے 23 کروڑ کے درمیان ہے، یعنی کم و بیش پاکستان جتنی۔
ہندو مسلم منافرت خاص طور پر مغلیہ دور کی مساجد کو گرا کر ان کی جگہ پر مندر بنانے کے تنازعوں کے لیے مشہور یہ ریاست آج جمعرات سے شروع ہونے والے اسمبلی انتخابات کی وجہ سے خبروں میں ہے۔
اتر پردیش میں 403 اسمبلی حلقوں کے لیے انتخابات 10 فروری سے سات مارچ کے درمیان سات مراحل میں منعقد ہو رہے ہیں، جن میں تقریباً 15 کروڑ شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں 2018 میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد محض 10 کروڑ 59 لاکھ 60 ہزار کے آس پاس تھی، جو اتر پردیش کے رجسٹرڈ ووٹروں سے کہیں کم ہے۔
گو کہ بھارت میں اتر پردیش کے ساتھ پنجاب، اترکھنڈ، منی پور اور گوا میں بھی انتخابات ہو رہے ہیں لیکن زیادہ بات چیت اتر پردیش کے انتخابات کی ہو رہی ہے۔
اتر پردیش کے انتخابات اہم کیوں؟
بھارت میں 2019 کے عام انتخابات کے بعد اتر پردیش کے انتخابات سب سے زیادہ اہم سمجھے جاتے ہیں کیوں کہ یہاں کے ووٹروں کا عام انتخابات میں ملک کی حکومت منتخب کرنے میں ایک بڑا کردار ہوتا ہے۔
اتر پردیش کے انتخابات کو اس لحاظ سے بھی بہت اہمیت حاصل ہے کیوں یہ ریاست سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے لیے ایک ایسی لیبارٹری کی حیثیت رکھتی ہے جہاں وہ بھارت کو ’ہندو راشٹر‘ بنانے کے ماڈل کا تجربہ کرتی ہے، نیز اس کی سب سے بڑی سیاسی شاخ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اسے اپنا گڑھ سمجھتی ہے۔
اس ریاست میں 2017 میں منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے 40 فیصد ووٹوں کے ساتھ 403 میں سے 312 نشستیں جیت کر ایک تاریخ رقم کی تھی۔ پھر جب 2019 میں عام انتخابات ہوئے تو اس جماعت نے اتر پردیش میں اپنی غیر معمولی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے 80 میں سے 62 نشستیں جیتیں۔
اتر پردیش میں کئی سیاسی جماعتیں میدان میں ہیں لیکن اصل مقابلہ بی جے پی، اکھلیش یادیو کی سماج وادی پارٹی اور مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کے درمیان ہے۔
بھارت کی سب سے پرانی سیاسی جماعت یعنی کانگریس اس ریاست میں عملی طور پر غیر متعلق ہو کر رہی گئی ہے اور پچھلے انتخابات میں محض چھ فیصد ووٹ ہی حاصل کر پائی تھی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر اتر پردیش کے عوام پھر سے فرقہ پرستی کی سیاست میں آ کر ووٹ دیتے ہیں تو بی جے پی ریاست میں اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
اگر ذات پات کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں تو امکانی طور پر بی جے پی کو اعلیٰ ذات کے ہندوؤں جیسے راجپوتوں اور برہمنوں، سماج وادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کے اتحاد کو جاٹوں (جاٹ کسانوں)، یادووں اور مسلمانوں جبکہ بہوجن سماج پارٹی کو نچلی ذات کے ہندو سمجھے جانے والے دلتوں کے ووٹ مل سکتے ہیں۔
یہاں لوک سبھا کی نشستوں کی تعداد 80 ہے۔ جب 543 اراکین والے لوک سبھا میں ایک ہی ریاست سے 80 اراکین آتے ہوں تو وہ ریاست انتخابی سیاست میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
اس کے مقابلے پر اگر اتر پردیش کے لوگوں نے بی جے پی کی مذہبی منافرت پر مبنی انتخابی مہم سے قطع نظر حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کو دیکھ کر ووٹ دیے تو اس کی ہار یقینی ہے۔
پروفیسر افروز عالم حیدرآباد دکن میں واقع مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ، ایک نامور سیاسی تجزیہ کار اور کالم نویس ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اتر پردیش کے انتخابات اس وجہ سے زیادہ اہم ہیں کیوں کہ لوک سبھا کی سب سے زیادہ نشستیں اسی ریاست میں ہیں۔
’یہاں لوک سبھا کی نشستوں کی تعداد 80 ہے۔ جب 543 اراکین والے لوک سبھا میں ایک ہی ریاست سے 80 اراکین آتے ہوں تو وہ ریاست انتخابی سیاست میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔‘
پروفیسر افروز عالم کہتے ہیں کہ ’میرا ماننا ہے کہ اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو سخت ٹکر ملے گی۔
’ممکن ہے کہ بی جے پی کی اتر پردیش کے انتخابات میں کارکردگی 2017 جیسی نہ ہو، اس کے ووٹ شیئر اور نشستوں کی تعداد میں بھی کمی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔‘
پروفیسر افروز عالم کا کہنا ہے کہ وہ یہ پیش گوئی کرونا (کورونا) وائرس کے دوران بی جے پی حکومت کی بدانتظامی، ہاتھرس میں دلت لڑکی کے گینگ ریپ، بی جے پی وزیر کے بیٹے کی طرف سے کسانوں کے اوپر سے گاڑی دوڑانے اور کسانوں سے الجھنے جیسے معاملات و واقعات کو مدنظر رکھ کر رہے ہیں۔
’ان معاملات و واقعات کی وجہ سے لوگوں میں بی جے پی کے تئیں ناراضگی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بی جے پی رام مندر کی تعمیر کو اپنی ایک بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے۔
’اگر لوگوں نے بھی اس کی تعمیر کو بی جے پی حکومت کی کامیابی سمجھا تو اس جماعت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔‘
اتر پردیش کے ضلع غازی آباد کے رہنے والے نیلانجن مکھو پادھیائے ایک سینیئر صحافی اور ’دا ڈیمولیشن اینڈ دا ورڈکٹ: ایودھیا اینڈ دا پروجیکٹ ٹو ریکن فگر،‘ ’نریندر مودی: دا مین دا ٹائمز‘ سمیت کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اتر پردیش کے انتخابات میں یہ دیکھنے کو ملے گا کہ لوگ ذریعہ معاش کے خدشات کو مدنظر رکھ کر ووٹ دیتے ہیں یا ایک بار پھر پولرائزیشن کی سیاست کے جھانسے میں آتے ہیں۔
’لوگوں کو اگر ناراضگی ہے تو کس سے ہے۔ اگر حکومت یا اس کی پالیسیوں سے ہے تو اپنے ووٹوں کے ذریعے اپنی اس ناراضگی کا اظہار کر سکتے ہیں۔
’اگر کسی تصوراتی دشمن سے ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ 2024 زیادہ دور نہیں ہے جب ملک میں عام انتخابات منعقد ہوں گے۔ پچھلے دو سال سے ملک اقتصادی اور طبی بحران میں رہا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی تکلیفوں میں اضافہ ہوا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دہلی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر شمس الاسلام نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اتر پردیش کے انتخابات یہ طے کریں گے کہ بالآخر بھارت کی جمہوری سیاست کی فاتحہ پڑھی گئی ہے یا وہ مزید کچھ دیر تک چل پائے گی۔
’میرا خیال ہے کہ بھارتی جمہوریت اور سیکولرازم فی الحال وینٹی لیٹر پر ہیں۔ اگر وہاں بی جے پی اور آر ایس ایس ہار جاتی ہے تو تھوڑی اور زندگی مل سکتی ہے نہیں تو اس کو کوئی بچا نہیں پائے گا۔‘
اتر پردیش کے ’یتیم مسلمان‘
پروفیسر افروز عالم کے مطابق 22 سے 23 کروڑ کی آبادی والے اتر پردیش میں مسلمانوں کا تناسب 20 فیصد کے آس پاس ہے۔
’یعنی وہ چار کروڑ سے زیادہ ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلمانوں کا ایک اچھا ووٹ شیئر ہے۔ ریاست کے 403 میں سے 60 اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمان انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں یا مسلم نمائندے جیت حاصل کر سکتے ہیں۔
’پچھلے (2017) کے انتخابات میں بہت زیادہ پولرائزیشن اور دیگر عوامل کی وجہ سے ان 60 حلقوں میں سے 37 پر بی جے پی امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی۔
’ایک پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ مسلمان ایک جٹ ہو کر کسی مخصوص جماعت یا امیدوار کو ووٹ کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ کسی حلقے میں مسلمان شخصیت تو کسی میں فرقہ، طبقہ یا ذات دیکھ کر ووٹ کرتے ہیں۔‘
معروف صحافی، محقق و مصنف ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کہنے کو تو اتر پردیش میں مسلمانوں کا تناسب آبادی کا 20 فیصد ہے لیکن وہ سیاسی طور پر یتیم ہیں اور ان کو کوئی پوچھتا نہیں۔‘
’پہلے تو ان کے ووٹوں کو کافی سیاسی اہمیت حاصل تھی۔ لیکن جب سے بی جے پی کا عروج ہوا ہے ان لوگوں نے مسلمانوں کو آہستہ آہستہ حاشیے پر ڈال دیا ہے۔
’اب کمیونسٹ پارٹی کو چھوڑ کر تمام دیگر جماعتیں سافٹ ہندوتوا کی باتیں کرتی ہیں۔ ان کو مسلمانوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کے ووٹوں کی بھی ضرورت نہیں۔
رام پور میں مسلمانوں کی آبادی 52 فیصد ہے۔ وہاں پیسے دے کر کئی مسلمانوں کو میدان میں اتارا جاتا ہے۔ جن کو پیسے دے کر میدان میں اتارا جاتا ہے وہ جیت نہیں پاتے لیکن ووٹ ضرور کاٹتے ہیں۔ ایسا ہی دوسرے حلقوں میں بھی ہوتا ہے۔ ایک مسلمان امیدوار کے خلاف تین دوسرے مسلمان کھڑے کر دیے جاتے ہیں اور بالآخر بی جے پی امیدوار جیت جاتا ہے۔
’بی جے پی بھارت کی جس 80 فیصد آبادی کی بات کرتی ہے بس وہی آبادی سیاسی اہمیت یا ریلیونس رکھتی ہے۔ ہندوتوا کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اس فلاسفی کو اپنا لیا ہے۔‘
ڈاکٹر ظفر الاسلام کہتے ہیں کہ بی جے پی اور دیگر ہم خیال جماعتیں کسی بھی حلقے میں مسلمانوں کے ووٹوں کو غیر متعلق بنانے کا فن جانتی ہے۔
’رام پور میں مسلمانوں کی آبادی 52 فیصد ہے۔ وہاں پیسے دے کر کئی مسلمانوں کو میدان میں اتارا جاتا ہے۔ جن کو پیسے دے کر میدان میں اتارا جاتا ہے وہ جیت نہیں پاتے لیکن ووٹ ضرور کاٹتے ہیں۔
’ایسا ہی دوسرے حلقوں میں بھی ہوتا ہے۔ ایک مسلمان امیدوار کے خلاف تین دوسرے مسلمان کھڑے کر دیے جاتے ہیں اور بالآخر بی جے پی امیدوار جیت جاتا ہے۔‘
مسلمانوں کی جماعت پھر میدان میں
حیدرآباد دکن کی سیاسی جماعت ’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین یا کل ہند مجلس اتحاد المسلمین‘ ایک بار پھر اتر پردیش میں انتخابی میدان میں اتر گئی ہے۔
اس نے 2017 کے انتخابات میں 38 اسمبلی حلقوں سے اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا جن میں سے ایک کو بھی جیت نصیب نہیں ہو پائی تھی۔
اب کی بار اس جماعت نے اپنے 100 امیدواروں کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم اس پر پھر وہی الزام لگایا جا رہا ہے کہ انتخابات لڑ کر مسلمانوں کے ووٹوں کو تقسیم کر کے بی جے پی کی مدد کرے گی۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام کا کہنا ہے کہ ’اسد الدین اویسی کا ایک بار پھر اتر پردیش کے انتخابات میں قسمت آزمائی کرنا ان کی ایک مجبوری ہے کیوں کہ وہ ایک سیاسی جماعت (آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین) چلا رہے ہیں۔‘
’اتر پردیش کے مسلمان حاشیہ بندی کی وجہ سے فرسٹریشن کا شکار ہیں۔ اب جب کوئی آ کر ان کی بات کرتا ہے تو انہیں لگتا ہے کہ کم از کم ہماری کوئی بات کرتا ہے۔
’حقیقت تو یہی ہے کہ اس (اویسی کی جماعت کے انتخابات لڑنے) سے نقصان ہونے والا ہے کیوں کہ موجودہ ماحول کے اندر اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ان کو چار یا پانچ نشستوں سے زیادہ ملیں گی۔
’بہار میں ان کے کچھ امیدوار ضرور جیتے لیکن اسمبلی میں سپیکر انہیں بات کرنے بھی نہیں دیتا۔ یہ لوگ 100 حلقوں سے اپنے امیدوار کھڑا کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر چار پانچ جیتیں گے لیکن باقی میں نقصان کرائیں گے۔ ایسا پہلے بھی ہوا ہے۔‘
ڈاکٹر شمس الاسلام کہتے ہیں کہ ’بے شک مسلمانوں کے ہی ووٹ لینے کے لیے اویسی میدان میں آئے ہیں لیکن یہ فسانہ ہے کہ مسلمان کسی مخصوص جماعت کو ایک ہو کر ووٹ دیتے ہیں۔
’کانگریس کے خلاف جب غصہ ہوتا ہے تو مسلمان ان کے خلاف ووٹ ڈالتے ہیں۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ مسلمانوں میں بہت ذاتیں، کئی فرقے اور جھگڑے ہیں۔ آپ رام پور کو ہی لے لیں۔ وہاں نوابوں کا خاندان اعظم خان (سماج وادی پارٹی کے رہنما) کے خلاف لڑتا ہے کبھی ہارتا ہے تو کبھی جیتتا ہے۔‘
پروفیسر افروز عالم کا کہنا ہے کہ اتر پردیش کے انتخابات میں اسد الدین اویسی کی جماعت کی قسمت آزمائی ایک علامتی شرکت ہو گی۔
’ان کی ایک سیاسی جماعت ہے اور کہیں بھی انتخابات لڑنے کا حق رکھتے ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح اویسی صاحب بھی اپنی جماعت کا پھیلاؤ چاہتے ہیں۔ وہ اپنا بیانیہ لے کر لوگوں کے پاس جا رہے ہیں۔
’اویسی کی جماعت کے انتخابات لڑنے سے مسلمانوں کا ووٹ شیئر زیادہ متاثر نہیں ہو گا لیکن دوسری جماعتوں کو اپنا بیانیہ توپنے میں آسانی ہوتی ہے۔
’ایسا قطعی نہیں ہے کہ وہاں کے سبھی مسلمان اویسی کی جماعت کو ووٹ دیں گے۔ بھارت کے مسلمان آزادی کے بعد سیکیولر سیاسی جماعتوں کو ووٹ کرتے آئے ہیں۔
’اتر پردیش میں 40 کے قریب مسلم سیاسی جماعتیں ہیں لیکن انتخابی سیاست میں ان کی کارکردگی صفر کے برابر ہے۔ کہنے کا مقصد ہے کہ وہاں کے مسلمان مسلم سیاسی جماعتوں کو ووٹ نہیں کرتے ہیں۔ مسلمانوں نے کبھی کانگریس، کبھی سماج وادی پارٹی تو کبھی بہوجن سماج پارٹی کو ووٹ دیے ہیں۔‘
بی جے پی کی انتخابی مہم اور مسلمان
بھارت کے کئی شہروں سے شائع ہونے والے اخبار ’انقلاب‘ کے مدیر برائے شمالی بھارت ایم ودود ساجد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اتر پردیش میں پچھلے انتخابات کے مقابلے میں اس بار مذہب کے نام پر لوگوں کے ووٹ لینے کی کوششوں میں شدت دیکھنے کو مل رہی ہے۔
’بہرحال وہ لوگ (بی جے پی رہنما) ہمیشہ سے یہی کرتے آئے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ سیکیولر آئین کا حلف لیتے ہیں لیکن پھر وہی مذہب اور نفرت کی باتیں کرتے ہیں۔
’بھارت میں یہ سب عام ہو رہا ہے۔ اس کو کون روکے گا؟ جن کو روکنا تھا وہ خود اس کے مرتکب ہو رہے ہیں۔‘
نیلانجن مکھو پادھیائے کہتے ہیں کہ اس انتخابی مہم میں بی جے پی کا جن چیزوں پر فوکس ہے ان میں مذہب کے نام پر پولرائزیشن پہلے نمبر پر ہے۔
’اب تک کی ان کی انتخابی مہم اسی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ امت شاہ (وفاقی وزیر داخلہ) جمعہ کی نماز پر طنزیہ کلمات کہہ رہے ہیں۔ تقریروں میں کہا جاتا ہے کہ پہلی کی سرکاروں کا مقصد مسلمانوں کو خوش کرنا ہوتا تھا۔
’لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ پھر سے وہی دور چاہتے ہیں جس میں مسلمانوں کو خوش کرنے کے کام ہوں۔
’یہ رجحان بہت خطرناک ہے۔ ہر ایک چیز کے لیے سرکار کو نہیں بلکہ ایک مخصوص قوم (مسلمانوں) کو قصوروار سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے بعد اب عیسائیوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ ان انتخابات میں یہ دیکھنے کو ملے گا کہ جو سلسلہ چلتا آیا ہے وہ چلتا رہے گا یا اس میں بریک آئے گا۔‘
پروفیسر افروز عالم کا کہنا ہے کہ بھارت میں سب سے زیادہ مذہبی پولرائزیشن اتر پردیش میں ہوتی ہے۔
’یہ پولرائزیشن متھرا، کاشی اور ایودھیہ کے نام پر ہوتی ہے۔ لہٰذا آبادی میں بڑا ہونے اور اہم مذہبی مقامات کی موجودگی کے سبب اس جگہ پر کوئی بھی مذہبی بیانیہ بہ آسانی کام کرتا ہے۔‘
ڈاکٹر ظفر الاسلام کہتے ہیں کہ پولرائزیشن کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ ایک ہندو کو بتایا جاتا ہے کہ آپ کا تعلق ایک مخصوص اور الگ گروپ سے ہے۔
’ہندوؤں کو بتایا جاتا ہے کہ آپ جناح، اردو، ٹوپی اور داڑھی والے لوگوں سے الگ ہیں۔ بی جے پی اپنے سیاسی نفع کے لیے اس طرح کی سیاست کے لیے مشہور ہے۔ اس کا کام ہی ہے نفرت پھیلانا۔‘
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا اتر پردیش کے ووٹر ’پولرائزیشن کی سیاست‘ کو سمجھنے سے اس قدر قاصر ہیں تو ڈاکٹر ظفر الاسلام کا کہنا تھا کہ اتر پردیش میں ان پڑھوں کی تعداد زیادہ اور سمجھ داروں کی تعداد بہت کم ہے۔
’غلط اور صحیح کی پہچان وہی کرے گا جو لکھا پڑھا ہو۔ اتر پردیش میں جیسے مسلمان ان پڑھ ہیں ویسے ہی ہندو بھی ہیں۔ ایک ہندو کو آسانی سے پاکستان، مسلمان اور قبرستان کی باتیں سنا کر بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ ایک ووٹر اتنا ان پڑھ اور جاہل ہے کہ اس کو اپنے نفع یا نقصان کا معلوم ہی نہیں۔‘
ڈاکٹر شمس الاسلام کہتے ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی نے ان انتخابات میں مذہب اور نفرت کی سیاست کی ذمہ داری خود لینے کی بجائے امت شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ (اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ) کو سونپی ہے۔
’ایک بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ بی جے پی ایک طرف ہے اور چار دیگر سیاسی جماعتیں دوسری طرف ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے ووٹ کاٹیں گی۔
’نہیں تو بی جے پی حکومت کی کوئی کارکردگی نہیں ہے۔ اس نے اتر پردیش کے لوگوں کو بھکاری بنا دیا ہے۔ اب مفت اناج اور دوسروں سہولیات کے نام پر انہیں لبھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
’اتر پردیش کے متعلق سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹیں اٹھا کر دیکھیں۔ وہاں جمہوری نظام کو پوری طرح سے ختم کیا گیا ہے۔ مسلمانوں اور دلتوں کے بعد وہ لوگ نشانے پر ہیں جو راجپوت نہیں ہیں۔‘
ذات پات کی بنیاد پر ووٹنگ
ضلع غازی پور سے تعلق رکھنے والے اجمل علی خاں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ ترسیل عامہ و صحافت سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش کے انتخابات میں ذات پات کی بنیاد پر ووٹ دینا ایک پرانا معمول ہے۔
’یہاں ذات پات پر مبنی سیاست خوب چلتی ہے۔ مذہب اور نفرت کی سیاست ایک نیا رجحان ہے۔ تمام برادریوں کے اپنے لیڈر ہیں۔ اسی طرح تقریباً تمام سیاسی جماعتیں کے اپنے اپنے ذات پر مبنی ووٹر ہیں۔‘
اجمل علی خاں کہتے ہیں کہ ’سماج وادی پارٹی کے سرپرست اکھلیش یادو دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کی ایک ذات ’یادو کمیونٹی‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا وہ یادووں کو اپنا ووٹ بینک مانتے ہیں۔‘
’راشٹریہ لوک دل جاٹ کمیونٹی (کسانوں) کو اپنا ووٹ بینک سمجھتی ہے۔ اس جماعت نے اب کی بار سماج وادی پارٹی سے اتحاد کیا ہے۔ میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اتر پردیش کے مسلمانوں کی اکثریت بھی سماج وادی پارٹی کو ہی ووٹ دیتی ہے۔
’مایاوتی کا تعلق چوں کہ دلت کمیونٹی سے ہے لہٰذا وہ دلتوں کو اپنا ووٹر مانتی ہیں۔ بی جے پی کی بات کریں تو وہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو اپنا ووٹ بینک سمجھتی ہے۔
’پچھلے انتخابات میں غیر یادو او بی سیز نے بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈالے تھے۔ یہ بی جے پی کی حکومت بننے کی ایک بڑی وجہ بنی تھی۔ اکھلیش یادو اس بار ان کے ووٹ حاصل کرنے میں سرگرمی سے لگے ہوئے ہیں۔‘