ترک حکومت ان دنوں اسرائیلی صدر اسحاق ہرتصوغ کے پیش آئند دورہ انقرہ کے موقعے پر فقید المثال خیر مقدم کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
’معزز اسرائیلی‘ مہمان کے ساتھ متوقع مذاکرات کا اہم نکتہ یہ ترک پیش کش لگتی ہے کہ اسرائیل یورپ کو قدرتی گیس فراہمی کے لیے پائپ لائن یونان کے زیر آب سمندری راستوں سے گزارنے کی بجائے سلطان عبدالحمید دوم کی سرزمین سے گزارے۔
اس سے قبل عرب گیس پائپ لائن، جسے عرب میڈیا میں ’امن پائپ لائن‘ کا نام دیا جاتا رہا، کی تعمیر سیاسی اور اقتصادی ترقی کا عنوان سمجھی جاتی تھی۔ عربی زبان میں شائع ہونے والے کثیر الاشاعت روزنامہ ’الشرق الاوسط‘ نے اس منصوبے کی تفصیلات پہلی مرتبہ شائع کی ہیں۔
امن پائپ لائن منصوبے کے تحت اسرائیل میں عسقلان کے ساحل سے نکلنے والی قدرتی گیس مصر کے راستے اردن، شام اور لبنان فراہم کی جا رہی ہے۔ اسحاق ہرتصوغ کے دورہ انقرہ کے بعد یہ منصوبہ استنبول کی طرف پیش رفت کرتا دکھائی دے سکتا ہے۔
بادی النظر میں قدرتی گیس شدید سرد موسم میں حرارت اور کھانا پکانے کی سہولت فراہم کرنے والی نعمت غیر مترقبہ سمجھی جاتی ہے، تاہم ان دنوں یہی قدرتی نعمت ایک اہم جیو پولیٹکل ہتھیار کا روپ دھار چکی ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران جرمنی، یورپی یونین کی ریاستوں اور روس کے درمیان گیس فراہمی معاہدے پر امریکہ کو شدید اعتراض رہا ہے۔
ادھر روسی صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین کی سرحد پر ایک لاکھ فوجی جمع کر رکھی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں کریملن فوج کی موجودگی سے یوکرین کو ہر لمحہ روسی حملے کا دھڑکہ لگا رہتا ہے۔
کیف، ایک طرف ماسکو کا حملہ روکنے کی پوزیشن میں نہیں اور حملے کی صورت انہیں اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی۔ دوسری جانب یورپی ملکوں کے صارفین کو گیس کے نرخوں میں 193 فیصد اضافے کا بوجھ بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن ایک دہائی پرانے گیس پائپ لائن منصوبے کے طویل عرصے سے مخالف رہے ہیں۔
بائیڈن نے روس کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے یوکرین پر حملہ کیا تو نورڈ سٹریم گیس پائپ کا منصوبہ ختم کر دیا جائے گا۔
نورڈ سٹریم گیس پائپ لائن منصوبے کے ذریعے روس کی قدرتی گیس براہ راست جرمنی پہنچی ہے۔
جرمنی توانائی کے لیے کوئلے اور جوہری توانائی کا استعمال کرتا رہا ہے۔ تاہم اب نصف سے زیادہ ضرورت ماحول دوست گیس سے پوری کر رہا ہے۔
اس منصوبے کی بدولت بحیرہ بالٹک سے گزاری گئی اس پائپ لائن کی بدولت گیس براہ راست جرمنی پہنچتی ہے۔ نورڈ سٹریم کے ذریعے سالانہ 55 ارب کیوبک میٹر گیس جرمنی پہنچتی ہے۔
وائٹ ہاؤس میں جرمنی کے نئے رہنما اور چانسلر اولف سکالز کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بائیڈن دھمکی آمیز لہجے میں بیان کر چکے ہیں کہ یوکرین میں فوجیں داخل ہوتے ہی نورڈ سٹریم شٹ ڈاؤن کر دیا جائے گا۔
اس وقت یہ سوال بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے کہ آیا 11 ارب ڈالرز کے منصوبے پر امریکہ اور جرمنی ایک پیج پر ہیں یا نہیں، کیونکہ یہ دو بڑی جمہوریتیں روسی صدر ولادی میر پوتن کو پیچھے دھکیلنے کے لیے نیٹو کے اتحاد کی قیادت کر رہی ہیں۔
اسی لیے صدر بائیڈن نورڈ سٹریم 2 پائپ لائن کو مفلوج بنانا چاہتے ہیں کیونکہ روسی صدر پوتن کے ہاتھ میں یہ پائپ لائن اہم ہتھیار ہے۔
ادھر قطر بھی دنیا کو قدرتی گیس جیسی اہم قدرتی جنس مہیا کرنے والے عالمی سپلائر کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔
اسی بنا پر بحران کے دنوں میں واشنگٹن نے دوحہ کا درجہ ’غیر نیٹو اتحادی‘ کے طور پر بڑھا دیا جس کے بدلے میں قطر نے یورپ کو گیس فراہمی یقینی بنائی۔
امریکہ کے غیر نیٹو اتحادی کے طور پر دوحہ سے یورپ کو گیس فراہمی کا فیصلہ اہم، مگر ناخوشگوار اقدام ہے۔ یہ فیصلہ امریکہ اور روس کے دمیان سرد جنگ میں قطر کو صف اول کا ہدف بنا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل بھی قدرتی گیس کو اپنی جیو پولیٹیکل سٹرٹیجی کا جزو لاینفک سمجھتا ہے۔
قدرتی گیس کے اضافی ذخائر کی اسرائیل میں دریافت صہیونی ریاست کے لیے خوش قسمتی کی نوید ثابت ہوئی۔
انہی قدرتی وسائل کو استعمال کر کے اسرائیل نے اپنے قومی بجٹ کے خسارے پر قابو پایا۔ جس کے بعد تل ابیب نے اپنے ہاں سے نکلنے والی 40 فیصد قدرتی گیس کو برآمد کے لیے مختص کر لی۔ ان دنوں قدرتی گیس، روسی خارجہ پالیسی کا اہم عنصر بنتی جا رہی ہے۔
اردن کو اسرائیل سے گیس فراہمی سے متعلق عمان کی پارلیمنٹ اور شامی ذرائع ابلاغ میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اسی گیس سے اردن کے عوام سخت جاڑے کے موسم کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔
لبنانی عوام بے صبری سے اسرائیلی قدرتی گیس کی فراہمی کی راہ دیکھ رہے ہیں کیونکہ ماضی میں مشرق وسطیٰ کے پیرس کی شہرت پانے والا بیروت ان دنوں برقی رو کی گھنٹوں طویل بندش کے باعث بھوت بنگلے کا منظر پیش کرنے لگا ہے۔
سیاسی اور تزویراتی اختلافات کے باوجود خطے کے ممالک کے پاس اپنے عوام کی ہنگامی ضروریات کی تکمیل کے لیے تعاون کے سوا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں اس لیے اپنے تمام تر تفاخر کو ایک طرف رکھ کر زمینی حقائق کو تسلیم کرنا ہی دانش مندی ہے۔
اس وقت غزہ میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنی صیہونی ریاست کی ملکیتی اسرائیل الیکٹرک کارپوریشن سے قدرتی گیس برآمد کر کے برقی رو تیار کرنے کی ضرورت پوری کرتی ہے۔
غزہ میں دوڑنے بھاگنے والی مواصلات مغربی کنارے میں اسرائیل سے درآمد ہونے والے پیٹرول اور ڈیزل کی مرہون منت ہیں۔
خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور عوام کے درماندگی دور کرنے کے لیے سیاسی قیادت معاملہ فہمی کے لیے تیار نہیں۔
غزہ کے ساحل پر موجود گیس فیلڈ کئی مدتوں سے معطل پڑا ہے اور ان علاقوں میں اگلے 20 برسوں تک تیل کی تلاش اور کھدائی کے لیے معاہدوں کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ ایسی ہی صورت حال لبنان کے عوام کا منہ مدت سے چڑا رہی ہے۔
ترکی نے اسرائیل کے ساتھ ’اچھے‘ تعلقات کی راہ اپنا لی ہے۔ یورپی ملکوں کی نظر میں اپنی اہمیت اجاگر کرنے اور ماضی کی پالیسیوں سے پہنچنے والے نقصانات کے ازالے کے لیے انقرہ نے سلطان عبدالحمید دوئم کی سرزمین کو اسرائیل سے یورپ جانے والی قدرتی گیس کی راہداری بنانے پر سمجھوتہ کر لیا ہے۔
ترکی ان دنوں اسرائیل کے ساتھ اپنے فوجی اور اقتصادی تعلقات کو نئی جہتوں سے آشنا کرنا چاہتا ہے۔
انقرہ کو احساس ہو گیا ہے کہ تل ابیب کے ساتھ سینگ پھنسانے کے بعد بہت سے معاہدے ترکی کا روایتی حریف یونان اپنے نام کر گیا۔
دوسری جانب ماضی میں ترکی کو ملنے والے فوجی، تکنیکی اور صنعتی لائنسوں کی بڑی تعداد ان دنوں متحدہ عرب امارات کے حصے میں آئی۔
مارچ میں اسرائیلی صدر کے ساتھ معانقے تک انقرہ کی سیاسی قیادت ماضی کی پالیسیوں پر کف افسوس ہی ملتی دکھائی دے گی۔