ایک طرف جہاں عالمی طاقتیں مذاکرات اور اقوام متحدہ کی مداخلت کے ذریعے یوکرین پر ممکنہ روسی حملے کے خدشے کو ٹالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، وہیں جنگ کے بادل سر پر منڈلاتے دیکھ کر کچھ یوکرینی اپنی حفاظت کے لیے تربیت حاصل کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے یوکرینی دارالحکومت کیئف کے مضافات میں جنگلات میں تربیت حاصل کرنے والے ایک گروپ کے ساتھ وقت گزارا۔ عام شہریوں کے اس گروپ کو سیلف ڈیفنس کے ساتھ ساتھ سخت سردی میں باہر گزارا کرنا، اپنی حفاظت کرنا، آگ جلانا اور کیمپ لگانا سکھایا گیا ہے۔
نیوز ویب سائٹ بلیز ٹرینڈز کے مطابق یوکرینی خواتین گارڈ کی سربراہ اولینا بلیٹسکا نے اس کورس کا انفعاد کروایا، جس میں خاص طور پر خواتین کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت پر زور دیا گیا۔
یوکرینی خواتین گارڈ فورس 2014 میں بنائی گئی تھی، جب ملک کے مشرق میں تنازع شروع ہوا۔
اس فورس کی سربراہ اولینا بلیٹسکا نے کہا: ’ہم اب تک 30 ہزار خواتین کو تربیت دے چکے ہیں۔ اب جب خطرہ بڑھ رہا ہے تو اس کی طلب میں مزید اضافہ ہوا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ جب اس کورس کا اعلان کیا گیا تو کچھ ہی دنوں میں صرف کیئف سے ایک ہزار خواتین نے اپلائی کیا۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق امریکی اور یورپی رہنماؤں کے سخت ردعمل کی دھمکیوں کے باوجود روس نے گذشتہ ہفتوں میں ایک لاکھ سے زائد فوجی اور فوجی ساز و سامان یوکرین کے ساتھ سرحد پر تعینات کیے ہیں۔ دسمبر میں امریکی انٹیلی جنس کی معلومات سے یہ لگتا ہے کہ روس ’2022 کے آغاز‘ میں یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے۔
یوکرینی سرحد پر صورت حال پریشان کن رہی ہے اور اب شہریوں نے غیر یقینی صورت حال میں اپنی حفاظت کے لیے کام کرنا شروع کردیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کورس میں حصہ لینے والی ایک 33 سالہ خاتون یانا کمنسکا نے اے ایف پی کو بتایا: ’تربیت یافتہ شخص کو بھی خوف محسوس ہوگا، افراتفری ہوگی۔ یہاں ہمیں اس سب سے نمٹنے کے بارے میں سکھایا جا رہا ہے۔‘
تنظیم کی سربراہ اولینا بلیٹسکا نے کہا: ’سویلین آبادی نے کہا کہ انہیں تربیت کی ضرورت ہے۔ یہ ایک مثبت بات ہے کیونکہ سب سمجھتے ہیں کہ ان کی زندگی، صحت اور اہل خانہ کی زندگی ان کی ذاتی ذمہ داری ہے۔ آپ کے پاس کم سے کم کچھ بنیادی تربیت اور صلاحیتیں ہونی چاہییں جنہیں آپ باہر سے مدد آنے تک استمعال کر سکیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’آج کل لوگ زیادہ سوال پوچھتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ پوچھتے ہیں کہ بمباری ہو تو کیا کریں یا اوپر بم گر رہے ہوں تو کیا کریں؟ یہ سوال 2014 کے مقابلے میں اور بھی زیادہ ہیں اور ہر کوئی واضح پلان چاہتا ہے کہ اس طرح کی صورت حال میں کیا کریں۔‘
کورس انسٹرکٹر سرگے وچ نیوسکی نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’ہم پر حملے کا خطرہ ہے، بڑے شہروں میں لوگ اس بات کے عادی ہوگئے تھے کہ تنازع ان سے دور ہے، کیئف سے 750 کلومیٹر دور، مگر اب انہیں پتہ چل گیا ہے کہ جنگ ان تک پہنچ سکتی ہے اور وہ اس کے لیے تیار نہیں۔‘
خواتین کے لیے کورس کی اہمیت سمجھاتے ہوئے ایک اور انسٹرکٹر وکٹر کرایوسکی نے کہا: ’سب سے زیادہ فوجی بوجھ خواتین کے کاندھوں پر ہے کیونکہ آپ کو صرف اپنے خاندان کے لیے نہیں لڑنا، بلکہ آپ کو اپنے بچوں اور معمر والدین کا بھی خیال رکھنا ہے، تو آپ کو سیکھنے کی ضرورت ہے کہ خود کو کیسے تیار کریں۔‘
انہوں نے وضاحت کی کہ اس کا مقصد کسی کو تشدد یا قتل کرنا سکھانا نہیں۔ ’سب کہتے ہیں کہ آپ قاتلوں کو تربیت دے رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ نہیں ہم اپنا تحفظ کرنا سکھا رہے ہیں۔‘