ترکی کے صدر رجب طییب اردوغان نے امریکہ اور جرمنی سمیت 10 ممالک کے سفیروں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے سے پیچھے ہٹنے کا اعلان کر دیا ہے۔
امریکہ اور دیگر مذکورہ ممالک نے بیان جاری کیا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے اس کنونشن کا احترام کرتے ہیں جو سفیروں کو اس بات کا پابند کرتی ہے کہ وہ اپنے میزبان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخت نہ کریں۔ اس کے بعد صدر اردوغان نے بھی اپنے فیصلے سے واپسی کا اعلان کیا۔
گذشتہ ہفتے صدر اردوغان نے ترک جیل میں قید سول سوسائٹی کے رہنما عثمان کاوالا کی رہائی کی اپیل کرنے پر امریکہ، جرمنی، کینیڈا، ڈنمارک، فن لینڈ، فرانس، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ، ناروے اور سویڈن کے سفیروں کو ’ناپسندیدہ‘ (پرسونا نان گراٹا) قرار دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’انہیں یہاں سے چلے جانا چاہیے جب وہ ترکی کو نہیں جانتے۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اردوغان نے پیر کو اپنی انتہائی قوم پرست اتحادی پارٹی سے ملاقات کی اور اس کے بعد کئی گھنٹوں طویل کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی، جس میں وزرا نے انہیں ترکی کے قریبی اتحادیوں اور تجارتی حلیفوں کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کے اقتصادی خطرات کے بارے میں خبردار کیا۔
اس کے بعد انہوں نے ٹی وی پر چلنے والے ایک بیان میں کہا کہ 10 سیفر سبق سیکھ چکے ہیں اور ’اب وہ مزید محتاط رہیں گے۔‘
سفارتی اقدار کا احترام کرنے کے سفیروں کے بیان کے بارے میں بات کرتے ہوئے اردوغان نے کہا کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ’وہ ہمارے ملک کے خلاف بہتان لگانے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اردوغان کے 19 سالہ دورِ اقتدار میں ترکی اور مغرب کے درمیان سنگین ترین سفارتی بحران ٹل جانے کے بعد ترک لیرا کی قدر میں اضافہ ہوا ہے، جو ڈالر کے مقابلے پر کم ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔
ترکی کے فیصلے کے بعد ایک بیان میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ واشنگٹن ترکی کے ساتھ ’باہمی دلچسپی کے بیشر معاملات‘ پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں ’قانون کی بالادستی اور انسانی حقوق کے احترام کو فروغ دیتے رہنے‘ کے لیے پرعزم ہے۔
صدر اردوغان نے گذشتہ جمعرات کو سفیروں کو دھمکی دی تھی اور پھر ہفتے کو انہیں ’پرسونا نان گراٹا‘ قرار دے دیا تھا۔ اس سفارتی اصطلاح کا مطلب ہے کہ میزبان ملک میں سفارت کار کو حاصل استثنیٰ ختم کردیا جائے۔
سفارتی حلقوں کے مطابق اگر سفیروں کی ملک بدری ہوجاتی تو یہ تاریخ میں نیٹو ممبران کے درمان تعلقات میں پہلی بار ایسا ہوا ہوتا۔
بحران تب شروع ہوا جب گذشتہ پیر کو ان 10 سفارت کاروں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں عثمان کاوالا کے خلاف کیس کو ’جلد اور منصفانہ‘ طور پر ختم کرنے کی اپیل کی گئی۔
64 سالہ کاوالا چار سال سے قید ہیں مگر انہیں سزا نہیں سنائی گئی ہے۔ ان کے حامی انہیں 2016 میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے اردوغان کی سیاسی اختلاف رائے کے خلاف بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی ایک علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تاہم حکومت کا الزام ہے کہ کاوالا نے 2013 میں حکومت مخلاف مظاہروں کی مالی معاونت کی اور فوجی بغاوت میں بھی کردار ادا کیا۔