پشاور سے تعلق رکھنے والے ایم حیات نے 1870 میں فرنیچر بنانے کے کام کا آغاز کیا تھا، جس کا نام معیار، نفاست اور خوبصورتی کی وجہ سے جلد ہی برصغیر میں پھیل گیا اور پھر جب یہ کاروبار ان کے بیٹے عبدالعزیز خان کو منتقل ہوا تو یہ مزید پروان چڑھا۔
عبدالعزیز خان نے تقسیم ہند کے بعد اس کی ایک شاخ پشاور میں کھولی، جہاں شاہ ایران کے محل، افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ، برطانوی محل بکنگھم پیلس اور امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے لیے بھی فرنیچر بنایا گیا۔
ایم حیات فرنیچر کے مطابق جب 22 مارچ 1911 میں کنگ جارج پنجم انڈیا آئے تو انہیں کنگ جارج کے لیے فرنیچر بنانے کا کام سونپا گیا تھا۔
اسی طرح جب 1961 میں صدر ایوب خان نے امریکہ کا دورہ کیا تو وہ صدر کے لیے اپنے ساتھ ایم حیات فرنیچرز کی بنی ہوئی ایک راکنگ چیئر لے کر گئے تھے۔ یہ راکنگ چیئر وائٹ ہاؤس میں صدر جان کینیڈی کی خواب گاہ میں موجود تھی اور کہا جاتا ہے کہ انہیں یہ کافی پسند بھی تھی۔
حال ہی میں اس راکنگ چیئر کو ’جولیئنز آکشن سائٹ‘ پر 89,600 امریکی ڈالرز میں نیلام کیا گیا۔
اگرچہ بنیادی طور پر یہ کاروبار ایم حیات کا آئیڈیا تھا لیکن انہوں نے اپنے دو بھائیوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا اور اس طرح یہ ان کا ایک خاندانی کاروبار بن گیا، جو بعد ازاں ان کے بچوں کو وراثت میں ملا اور موجودہ وقت میں ایم حیات برادرز کے خاندان کے افراد ملک کے مختلف شہروں میں ایم حیات کے نام سے الگ الگ کاروبار کر رہے ہیں۔
تاہم اس تصور کے بانی ایم حیات کا بزنس ان کے بیٹے عبدالعزیز خان، پھر ان کے بعد خالد عزیز اور موجودہ وقت میں ان کی اہلیہ نیلوفر عزیز کی دیکھ بھال میں ہے اور وہ اس کی مینجنگ ڈائریکٹر کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیلوفر عزیز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ چونکہ ان کے شوہر خالد عزیز سول سروس میں تھے، لہذا انہیں سرکاری طور پر یہ کاروبار سنبھالنے کی اجازت نہیں تھی، لہذا شادی کے فوراً بعد انہوں نے اس کاروبار کی باگ ڈور سنبھال لی۔
نیلوفر عزیز نے بتایا کہ خوش قسمتی سے انہیں گھر کی آرائش وتزئین میں اچھی خاصی دلچسپی تھی، اسی لیے انہیں اپنا خاندانی کاروبار سنبھالنے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔
بقول نیلوفر: ’میں نے فرنیچر کے معیار اور نفاست پر کبھی کوئی حرف نہیں آنے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اس کی درآمد کرتے آرہے ہیں، جیسے کہ ایگل کنسول ہم نے ہزاروں کی تعداد میں امریکہ سپلائی کیے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ انہیں اپنے شوروم میں جو چیزیں زیادہ پسند آتی ہیں، انہیں وہ اپنے گھر لے آتی ہیں۔ نیلوفر کے مطابق ان کے گھر میں کئی میزیں اور الماریاں 70 سال سے زیادہ پرانی ہیں، جن کی انہوں نے نہ دوبارہ پالش کروائی اور نہ مرمت۔
’یہ فرنیچر آج بھی اسی آب وتاب کے ساتھ چمک رہا ہے اور اس کو کبھی پالشنگ کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ ہمارا تعلق چونکہ پشاور سے ہے، اس لیے ہم اخروٹ اور شیشم کی لکڑی استعمال کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اکثر کاروباری حضرات کسٹمرز کو دھوکہ بیچتے ہیں جبکہ پرانے وقتوں میں لوگ اپنے کاروبار کے ساتھ مخلص ہوا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کاریگروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں سے نکلا ہوا سامان آج جس کسی کے پاس بھی موجود ہے وہ اسی طرح پائیدار اور نفیس ہے اور جس کا نعم البدل موجودہ وقت میں ملنا بہت ہی مشکل ہے۔‘