اسلام آباد سے جیسے ہی آپ ہیتھرو ایئرپورٹ سے باہر آتے ہیں، لگتا ہے دنیا ہی بدل گئی ہے۔ نہ ماسک، نہ سماجی فاصلوں کی قدغن، نہ قرنطینہ کی پابندی، نہ ہی کہیں لکھا ہوا ہے کہ ویکسین سرٹیفکیٹ دکھانے والوں کو داخلے کی اجازت ہے۔ سب کچھ ایک دم نارمل، کرونا سے پہلے کی دنیا جیسا ہے۔
ساؤتھ ہال سے سینٹرل لندن تک تمام ریسٹورنٹ لوگوں سے بھرے پڑے ہیں بلکہ ویلنٹائن ڈے پر تو یہاں بغیر پیشگی بکنگ کے بیٹھنے کی جگہ تک نہ تھی۔ آپ ویسٹ منسٹر جاتے ہیں تو یہاں بھی صرف 30 فیصد لوگوں کو ماسک لگائے دیکھتے ہیں، لگتا ہے باقی لوگوں نے کرونا کی حفاظتی پابندیوں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر ٹھان لی ہے کہ زندگی جتنی بھی باقی ہے اور جیسی بھی ہے اسے آزادیوں سے گزارا جائے۔
اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں ابھی تک بہت سی جگہیں ایسی ہیں جہاں ماسک لگانا لازمی قرار دیا گیا ہے، ہوائی سفر اب بھی بغیر ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ کے نہیں ہو سکتا اور دس فیصد سے زیادہ شرح والے شہروں میں تعلیمی اداروں میں پابندیاں برقرار ہیں۔
مغرب اور ہمارے معاشروں میں فرق صرف آزادیوں کا ہی ہے اور لگتا ہے کہ کرونا میں بھی ہمیں اس میدان میں مات ہو گئی ہے۔ برطانیہ دنیا کا پہلا ملک بننے کا اعزاز حاصل کر چکا ہے جہاں11 فروری سے تمام کرونا پابندیاں ہٹا دی گئی ہیں۔ میں اسی روز سفر کر رہا تھا، اس لیے میں نے خود دیکھا کہ اسلام آباد سے دوحہ ایئرپورٹ اور دوحہ سے ہیتھرو ایئرپورٹ پر جہاز مسافروں سے بھرے ہوئے تھے۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بہادری دکھاتے ہوئے سب کچھ کھول دیا ہے اور کہا ہے کہ کرونا کو ایک نارمل فلو کی طرح لیں اور گھروں میں بیٹھ کر کام کرنے کی روایت ترک کرکے اپنے اپنے کام پر واپس آ جائیں۔
وزیرِ صحت ساجد جاوید کا کہنا ہے کہ کرونا کے خلاف ہمارا مدافعتی نظام کام کرنے لگ پڑا ہے اور اب ہمیں کرونا کے ساتھ ہی جینا سیکھنا ہے۔ صرف وہ لوگ گھروں پر رہیں جنہیں کرونا کی علامات ہیں، باقی گھروں سے نکلیں۔ حیرت کی بات ہے کہ جس روز سے کرونا کی پابندیاں ختم ہوئی ہیں، اسی روز سے کرونا کیسز میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ گذشتہ بدھ کو صرف 52 ہزار 218 کیس سامنے آئے جو ایک ہفتہ پہلے کے اسی دن سے پانچ گنا کم تھے۔ ہسپتال میں داخل ہونے والوں کی شرح بھی پچھلے آٹھ ہفتوں میں سب سے نچلی سطح پر آ چکی ہے۔
کرونا پابندیاں ختم کرنے کی وجہ معاشی پہیے کی بحالی ہے کیونکہ اس وقت برطانوی معیشت 234 کھرب پاؤنڈ کی مقروض ہو چکی ہے۔ مجموعی قرض، مجموعی قومی پیداوار کے 96 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ صرف گذشتہ مالی سال کے دوران برطانوی حکومت نے321.8 ارب پاؤنڈ کا قرضہ حاصل کیا جو کہ 1947 کے بعد کسی بھی ایک سال میں حاصل کیا گیا سب سے زیادہ قرضہ ہے۔ یہ قرضہ حکومتی خزانے پر اگلے 55 سال تک بار کی صورت موجود رہے گا۔ گذشتہ سال جی ڈی پی میں اضافے کی شرح چھ فیصد رہی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کرونا کی پابندیوں کے خاتمے کے بعد اس میں کس قدر اضافہ ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لوگ پاکستان میں مہنگائی کا رونا روتے ہیں لیکن یہ ایک عالمی وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ 2005 میں تندور سے ایک روٹی 50 پینس کی ملتی تھی، اب ڈیڑھ پاؤنڈ کی ملتی ہے۔ برطانیہ میں مہنگائی کی شرح گذشتہ 30 سال کی بلند ترین شرح یعنی 5.5 فیصد پر ہے، اگرچہ پاکستان جہاں لوگوں کی آمدن بہت محدود ہے وہاں یہ شرح تین گنا زیادہ ہے۔
کرونا کی پابندیاں ختم ہونے سے برطانیہ کے سیاحتی شعبے کی بحالی سے اس سال 192 ارب پاؤنڈ کی آمدنی کی توقع کی جا رہی ہے، جو کرونا سے پہلے کے سال کے مقابلے میں صرف 19 فیصد کم ہوگی۔ سیاحتی شعبے کی بحالی سے 43 لاکھ لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
برطانوی یونیورسٹیاں اس کی معیشت میں سالانہ 95 ارب پاؤنڈ کا حصہ ڈالتی ہیں اور اس سے آٹھ لاکھ 15 ہزار لوگوں کو براہ راست روزگار کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ کرونا کی پابندیوں کے خاتمے کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ بیرونی ممالک سے زیادہ طلبہ و طالبات برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے آئیں گے۔
برطانیہ کرونا کے بعد کی دنیا میں اعتماد سے داخل ہو رہا ہے، یہ اعتماد یہاں کے لوگوں کے چہروں پر عیاں ہے۔ لوگ اپنے روزمرہ کے معاملات کی ادائیگی میں پوری طرح متحرک ہوچکے ہیں۔ فیکٹریاں چل پڑی ہیں۔ سڑکوں پر رش ہے، شاپنگ مالز میں پارکنگ کے حصول کے لیے کئی چکر کاٹنا پڑتے ہیں۔ البتہ ہوٹلوں میں کمروں کی بکنگ کی شرح ابھی بہت کم ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ جیسے جیسے موسم بدلے گا، ہوٹلوں کی رونقیں بھی بحال ہو جائیں گی۔ چرچوں، مسجدوں، مندروں اور گردواروں میں عبادت کرنے والوں کے ہجوم بھی لوٹ آئے ہیں۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ امتحان کے دن گزر گئے ہیں اور اب خدا نے ان کی گناہ بخش دیے ہیں۔