پاکستان کی سیاست میں رواں ماہ شروع ہونے والی حکومت مخالف تحریک عدم اعتماد کی بازگشت سنجیدہ نظر آنے لگی ہے جس کی بڑی وجہ حکمران جماعت کے رہنما جہانگیر ترین کی اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے حالیہ خفیہ ملاقات ہے۔
دو روز قبل ہونے والی اس ملاقات کے بارے میں نجی میڈیا ذرائع سے خبریں چلا رہا تھا لیکن اس کی تصدیق کسی جانب سے نہیں کی گئی مگر آج پیر کو جیو نیوز کے مارننگ شو میں پنجاب کے صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان نے اس ملاقات کی واضع تصدیق کردی۔
ان کا کہنا تھا: ’ان کی اطلاعات کے مطابق دو دن پہلے جہانگیر ترین کی شہباز شریف سے لاہور میں پیپلز پارٹی رہنما مخدوم احمد محمود کے گھر ملاقات ہوئی ہے۔‘
اب تک معاملے پر خود ترین گروپ، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کوئی تبصرہ کرنے کو تیار نہیں تھے لیکن حکومتی اہم وزیر کی جانب سے اس اعلان پر حکومت مخالف اپوزیشن کی جانب سےتحریک عدم اعتماد کی کاوش کو بظاہر تقویت ملی ہے۔
کیونکہ اس سے قبل حکومتی اتحادی مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کی قیادت بھی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقاتیں کر چکی ہے۔
حکومت کا خفیہ ملاقات کی تصدیق کا مقصد کیا ہوسکتا ہے؟
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی تیاریوں کو اتحادیوں سے ملاقاتوں کے بعد سنجیدہ تو لیا جارہا تھا لیکن اتنا حتمی نہیں سمجھا گیا مگر فیاض چوہان کی تصدیق کے بعد اس کوشش میں جان پڑی۔
مجیب شامی کے بقول اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں ایک تو یہ کہ حکومت ترین گروپ کو عوام میں خود ایکسپوز کرنا چاہتی ہوتاکہ یہ تاثر قائم ہو حکومت کو اپنے پارٹی رہنماؤں کی اپوزیشن سے آف دی ریکارڈ یعنی خفیہ ملاقاتوں کا بھی علم ہے لیکن اس کا امکان کم لگتا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’دوسری وجہ یہ ہے کہ فیاض الحسن چوہان کو خود بھی خبروں میں رہنے کا شوق ہے اور ماضی میں بھی وہ ایسے بیان دے چکے ہیں جس سے پارٹی کو نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
’اس بار بھی وہ شاید حکومتی حلقوں میں اہمیت حاصل کرنے کے لیے اس خفیہ ملاقات کا اعلان کر بیٹھے جس سے حکومتی جماعت کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور جو دراڑ ترین گروپ اور حکومت میں موجود تھی وہ مزید گہری ہوجائے اگر وہ حکومت کے ساتھ رہنے کا تھوڑا خیال رکھ بھی رہے تھے تو اس طرح کی ملاقاتوں سے شاید اب مشکل ہوجائے۔‘
مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ جہاں تک تحریک عدم اعتماد کا تعلق ہے وہ کوشش تو بھرپور ہورہی ہے لیکن میرے خیال میں مستقبل کی حکومت کا فارمولہ ابھی طے نہیں ہوا جس سے نقشہ واضع نہیں ہورہا۔
’اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں تو متحد ہوسکتی ہیں لیکن حکومت میں ہر ایک جماعت کو اپنا حصہ ضرور چاہیے ہوگا جو فامولہ ابھی طے نہیں پایا۔‘
ان کے خیال میں اگر ترین گروپ اور چوہدری برادران اپوزیشن کا ساتھ دینے پر رضا مند ہوگئے اور اپوزیشن وفاق سے پہلے پنجاب میں وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئی تو یہ ٹارگت قدرتاً آسان ہوگا اور وفاقی حکومت بھی دباؤ میں آجائے گی۔
ان کا کہنا تھا: ’اس کے علاوہ حکومت بھی اپنے اراکین اور اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کی کوشش تو کر رہی ہے لیکن سیاسی احتیاط دکھائی نہیں دے رہی جیسے انہیں لوگوں کو ساتھ رکھنے کی جدوجہد کرنے چاہیے وہ نظر نہیں آرہی۔‘
ملاقاتوں پر حکومت اور اپوزیشن کا بیانیہ
مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اراکین پارلیمان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور اس سیاست میں ادارے کو گھسیٹنے کی وجہ سے پہلے ہی ادارے کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔
مریم اورنگزیب نےدعویٰ کیا کہ پشاور سے ایک شخص کے ذریعے ارکان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’آپ باز نہ آئے تو ہم اِن صاحب کا نام لینے پر مجبور ہوں گے۔‘
مجیب الرحمٰن شامی کے مطابق جن کا مریم اورنگزیب حوالہ دے رہی ہیں شاید اس شخص کو سب جانتے ہیں لیکن نام تو وہی بتا سکتی ہیں۔
اس صورتحال میں اپوزیشن کی قیادت حکمران جماعت کے اتحادیوں سے آن ریکارڈ بھی ملاقاتیں کر رہی ہے اور خفیہ رابطے بھی جاری ہیں۔
سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: ’جہانگیر ترین تحریک انصاف کا حصہ ہیں بلاول بھٹو سے جہانگیرترین کی ملاقات کے متعلق نہیں جانتا میں صرف پی ڈی ایم کے متعلق بات کرسکتا ہوں۔ جہانگیر ترین کے بارے پیشن گوئی نہیں کرسکتا، جہانگیرترین جو فیصلہ کریں گے وہ ان کا اپنا ہوگا۔‘
اسی طرح مسلم لیگ ن پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری سے جب شہبازشریف اور جہانگیر ترین کی خفیہ ملاقات سے متعلق رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی اس بارے میں تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کردیا۔
خود جہانگیر ترین گروپ کے ارکان سے جب رابطہ کیا گیا تو ان میں سے بھی کوئی اس ملاقات کی تردید یا تصدیق کرنے کو تیار نہیں ہے۔
اس صورتحال میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی موقف نہیں دیا بلکہ خاموشی اختیار کی۔
جہانگیر ترین گروپ کے متحرک رہنما عون چوہدری کے بقول ان کے گروپ کو30 صوبائی اور سات اراکین قومی اسمبلی کی حمایت حاصل ہے اور آئندہ چند دنوں میں مزید اجلاس کریں گے جس میں تعداد بڑھنے کا امکان ہے۔