اسلام آباد کی ضلعی عدالت میں منگل کے روز ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے نور مقدم کیس کی آخری سماعت کی۔
اپنے حتمی دلائل میں وکیل مدعی شاہ خاور نے کہا کہ ’نورمقدم قتل کیس میں ڈی وی آر، سی ڈی آر، فورینزک اور ڈی این اے پر مبنی ٹھوس شواہد ہیں۔ نور مقدم قتل کیس میں تمام شواہد سائنسی طور پر شامل کیے گئے ہیں۔ ملزمان کے خلاف پراسیکیوشن نے کیس ثابت کر دیا ہے لہذا عدالت ملزمان کو سخت سے سخت سزا دے۔‘
اپنے حتمی دلائل میں پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے کہا کہ ’جائے وقوعہ سے ملزم آلہ قتل کے ساتھ گرفتار ہوا، ملزم کی شرٹ خون آلود تھی اس کے بعد کوئی شک رہ ہی نہیں جاتا۔ انہوں نے اپنے دلائل کے اختتام پر کہا کہ اس کیس کو ملک کا بچہ بچہ دیکھ رہا ہے کہ ملک کا نظام انصاف کیسے چل رہا، عدالت اس کیس کو مثالی بنائے۔‘
مرکزی ملزم کی والدہ اور شریک ملزم عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے جواب الجواب دیتے ہوئے کہا کہ میری موکلہ کے خلاف کال ریکارڈ ڈیٹا کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں ہے جب کہ سپریم کورٹ ٹرانسکرپٹ کے بغیر کال ڈیٹا ریکارڈ کے متعلق فیصلے دے چکی ہے۔ استغاثہ یہ ثابت نہیں کر سکا کہ ملزم کے والدین کو قتل کے بارے علم تھا۔
تفتیشی افسر نے کال ریکارڈ ڈیٹا ایس پی آفس سے حاصل کیا، کال کا ڈیٹا سیلولر کمپنی سے حاصل کیا جانا تھا جو کہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کال ریکارڈ ڈیٹا تھرڈ پارٹی نے بنایا ہے اس پر فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں؟‘
مرکزی ملزم کے والد اور شریک ملزم ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ نے اپنے جواب الجواب میں کہا کہ ’پراسیکیوشن نے کہا کہ یہ ایک ہائی پروفائل کیس ہے، میں بتایا چلوں کہ عدالت کے سامنے تمام کیسز اہم ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے تفتیش پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’آئی جی کی سربراہی میں تفتیش ہوتی رہی ہم کہاں جا کر تفتیش سے متعلق شکایت کرتے پوری ریاست تو ایک اس کیس کے پیچھے لگی ہوئی تھی، وزیر داخلہ شیخ رشید احمد پریس کانفرنس کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’میں جو کچھ کر سکتا تھا میں نے کیا، ظاہر جعفر کو پولیس کی حراست میں گولی تو نہیں مار سکتا۔‘
ذاکر جعفر کے وکیل نے اپنے جواب الجواب کے اختتام پر کہا کہ پراسیکیوشن بتا دے کہ ’کسی ایک گواہ نے بھی یہ نہیں کہا کل واقعہ کی اطلاع کس نے دی، ایک گواہ پراسیکیوشن نہیں لائے جو بتا سکے کہ انہوں نے قتل ہوتے ہوئے دیکھا۔ وکیل بشارت اللہ نے کہا کہ اس کیس کا چشم دید گواہ ہی موجود نہیں لہذا میرے موکل کو بری کیا جائے۔ مرکزی ملزم کے وکیل شہریار نواز نے جواب الجواب میں کہا کہ پروسیکیوشن نے کہا کہ ہر چیز پر ظاہرجعفر کے انگلیوں کے نشان ہیں۔ استغاثہ اب تک جواب نہیں دے پائی کہ آلہ قتل پر ظاہرجعفر کے فنگر پرنٹس کیوں نہیں ہیں۔‘
گھریلو ملازمین (شریک ملزمان) کے وکیل نے عدالت سے جواب الجواب میں کہا کہ ’ملازمین نے والدین کو آگاہ کر کے اپنی ذمہ داری پوری کی۔ نور پہلے بھی گھر آتی جاتی تھیں انہیں یہ تھوڑی علم تھا کہ ظاہر جعفر نور کا قتل کرے گا۔‘
ٹرائل مکمل
سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کے قتل کیس کا ٹرائل مکمل ہو گیا ہے۔ چار ماہ جاری رہنے والے ٹرائل میں گواہوں کے بیانات جرح ثبوت شہادتیں اور وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر جج عطا ربانی نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا جو 24 فروری کو سنایا جائے گا۔
مدعی مقدمہ شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور اور معاون وکیل نے حتمی دلائل دیے جس کے بعد ملزمان کے وکلا نے کچھ نکات پر جوابی دلائل دیے۔ تقریباً تین گھنٹے سماعت جاری رہنے کے بعد کارروائی مکمل ہو گئی۔
اس کیس میں جولائی سے اب تک کیا ہوا؟
بیس جولائی کی شام نور مقدم کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں قتل کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد ملزم ظاہر جعفر کو موقع سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔ ملزم ظاہر جعفر مشہور بزنس مین ذاکر جعفر کے صاحبزادے ہیں۔
پولیس نے 24 جولائی کو جرم کی اعانت اور شواہد چھپانے کے جرم میں ملزم کے والدین ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی سمیت دو گھریلو ملازمین کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لیا تھا۔ ملزم کی والدہ کو سپریم کورٹ نے خاتون ہونے کے بنا پر ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ والد اور دیگر ملوث ملزمان اڈیالہ جیل میں ہیں۔
اس کیس میں 24 جولائی کے بعد شواہد اکٹھے کرتے ہوئے پولیس نے تمام ملوث افراد کو زیر حراست لے لیا تھا جس میں مکان کا مالی ڈرائیور چوکیدار شامل ہیں اس کے علاوہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین جو وقوعے کے وقت کراچی میں موجود تھے لیکن بزریعہ فون بیٹے سے رابطے میں تھے انہیں بھی پولیس نے سہولت کاری کے جرم میں حراست میں لیا تھا۔
ملزمان کے جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے بعد پولیس نے اپنی رپورٹ تیار کی اور 11 ستمبر کو پولیس نے ملزمان کے اعترافی بیانات پر مشتمل کیس کا چالان ضلعی عدالت میں پیش کر دیا۔ پولیس کے سامنے ملزم نے جرم کا اقرار کرتے ہوئے کہا تھا کہ نور نے شادی سے انکار کیا تو اس لیے اسے قتل کر دیا۔
پولیس نے اپنے چالان میں ملزم کے والدین کے بارے میں لکھا تھا کہ والدین وقوعہ ہونے سے پہلے ہی حالات سے باخبر تھے کیونکہ ظاہر جعفر ان سے رابطے میں تھا۔ اگر والدین بروقت پولیس کو اطلاع کر دیتے تو یہ نور قتل ہونے سے بچ سکتی تھی۔ ملازمین بارے بھی پولیس کے چالان میں موقف تھا کہ جب گھر میں ان کی آنکھوں کے سامنے یہ واقعہ ہو رہا تھا جب نور نے بھاگنے کی کوشش بھی کی تھی اگر چوکیدار انہیں گیٹ کھولنے سے نہ روکتا تو افسوسناک واقعے کو وقوع پذیر ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔
فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی
فرد جرم عائد کرنے کے لیے پہلے چھ اکتوبر کی تاریخ دی گئی۔ لیکن پھر 14 اکتوبر 2021 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی۔ فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کے دوران ظاہر جعفر نے کہا تھا کہ ’میں جیل میں مرنا نہیں چاہتا میری زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ مجھے پھانسی دیں دے میں ایسے جیل میں نہیں رہنا چاہتا۔ میرے پاس کوئی چوائس نہیں تھی ہاں میں نے اعتراف جرم کیا تھا۔ میرے ہاتھ سے یہ سرزد ہوا آپ نے سزا دینی ہے یا معافی؟‘
بعد ازاں جب چارج شیٹ پڑھ کر سنائی گئی تو ملزمان نے صحت جرم سے انکار کر دیا تھا۔ سماعت کا باقاعدہ آغاز 20 اکتوبر سے ہوا جس میں پہلے گواہ کا بیان قلمبند کیا گیا۔
اس دوران ظاہر جعفر کے والدین نے مقدمہ کے اخراج کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی رابطہ کیا تھا لیکن ہائی کورٹ نے درخواست مسترد کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو دو ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی بعد ازاں ٹرائل کورٹ نے مقدمہ مکمل کرنے کے لیے مزید وقت مانگا تھا۔
ظاہر جعفر کا ذہنی معائنہ
اس دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل نے ظاہر جعفر کی ذہنی صحت ٹھیک نہ ہونے پر بھی سوالات اٹھائے اور عدالت سے استدعا کی کہ ظاہر جعفر کا ذہنی معائنہ کروایا جائے کیونکہ ان کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں۔ اس دوران ہونے والی سماعتوں میں ظاہر جعفر نے کمرہ عدالت میں عجیب حرکتیں کی کبھی پولیس والوں کو دھکے دیے کبھی چلنے سے انکار کر دیا۔
ظاہر جعفر کو ایک بار کرسی اور سٹریچر پر بھی عدالت میں لایا گیا۔ اس کے بعد جب اڈیالہ جیل ڈاکٹرز کے بورڈ نے طبعی رپورٹ دی تو ظاہر جعفر جو ٹرائل کے لیے مکمل تندرست قرار دیا۔
گذشتہ چار پانچ سماعتوں میں ظاہر جعفر کا رویہ بلکل معمول کے مطابق ہے اور قدموں پر چل کر کمرہ عدالت آتے ہیں اور خاموشی سے سماعت سنتے ہیں۔
ملزمان کے دفعہ 342 کے بیانات
شہادتیں قلمبند اور جرح مکمل ہونے کے بعد ملزمان کو ضابطہ فوجداری دفعہ 342 کے تحت سوالنامہ دیا گیا۔ 342 کے بیان میں ظاہر جعفر اپنے پچھلے بیانات سے منحرف ہو گئے اور کہا کہ نور نے میرے گھر ڈرگ پارٹی رکھی تھی مجھے ہوش نہیں رہا جب ہوش آیا تو دیکھا نور کا قتل ہو چکا ہے۔
انہوں نے موقف اپنایا کہ پارٹی میں بہت سے لوگ تھے ان میں سے کسی نے نور کا قتل کر دیا۔ اور ریپ کی ایک توجیح پیش کی کہ وہ نور کے ساتھ باہمی رضامندی گزشتہ تین سالوں سے تعلق میں تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وکلا کے حتمی دلائل
مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل نے حتمی دلائل میں اس قتل کو غیرت کے نام پر قتل کا رخ دینے کی کوشش بھی کی کہ ظاہر سے تعلق کے بنا پر نور کو کوئی اس کا قریبی بھی قتل کر سکتا ہے۔ لیکن مدعی کے وکلا نے ان کے دلائل کو فرانزک اور وڈیو شواہد کی روشنی میں جھٹلا دیا اور کہا کہ غیرت کے نام پر قتل اور ڈرگ پارٹی والی بات من گھڑت ہے۔
پولیس کی تفتیش اور بیان
اس کیس میں دوران ٹرائل تفتیشی کے متنازع بیان سامنے آنے پر جب میڈیا نے تنقید کی کہ پولیس کے بیان سے ملزم کو شک کا فائدہ ہو سکتا ہے تو آئی جی اسلام آباد کی جانب سے نور مقدم کیس کے شواہد کے حوالے باقاعدہ بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ’کرائم سین سے ملنے والے یہ تمام شواہد ناقابل تردید ہیں اور ان کی فرنزاک لیبارٹری سے تصدیق ہو چکی ہے۔ آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ یہ تمام ٹھوس شواہد ہیں جو ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانے اور نور مقدم کے انصاف کے لیے کافی ہیں۔ تفتیشی ٹیم نور مقدم کے انصاف کے لیے کوشاں ہے۔‘