ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں نور مقدم کیس کی سماعت کے دوران آج مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے اپنے اور مقتولہ کے مابین تعلقات کے ویڈیو ثبوت یو ایس بی کے ذریعے عدالت میں جمع کروا دیے۔
گذشتہ سماعت پر ملزم ظاہر جعفر نے کہا تھا کہ وہ اپنے دفاع میں عدالت میں کچھ پیش کرنا چاہتے ہیں۔
سماعت کے آغاز میں ملزم ظاہر جعفر کے وکیل نے یو ایس بی عدالت میں جمع کرائی تو ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی استفسار کیا کہ اس یو ایس بی میں کیا ہے؟
ملزم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’یو ایس بی میں ظاہر جعفر اور نور مقدم کے باہمی تعلقات سے متعلق ویڈیوز ہیں، اس کے علاوہ ظاہر جعفر کے امریکہ کے ٹکٹ کی کاپی بھی پیش کر دی ہے۔‘
جس پر عدالت نے پیش کردہ مواد کو ریکارڈ کا حصہ بنا لیا۔
واضح رہے کہ گذشتہ سماعت میں ملزمان کے ضابطہ فوجداری 342 کے تحت بیان قلمبند ہو چکے ہیں جس کے بعد اب تمام وکلا حتمی دلائل دیں گے۔
پیر کے روز ہونے والی سماعت 12 بجے شروع ہوئی لیکن وکلا کی تاخیری آمد کی وجہ سماعت میں وقفہ کر دیا گیا۔ دو بجے سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔ اس دوران مرکزی ملزم سمیت دیگر ملزمان کو بھی عدالت حاضری کے لیے بخشی خانے سے لایا گیا۔
سرمئی رنگ کی جیکٹ جس پر روکس Rocks لکھا تھا اور برینڈد ٹریک ٹراؤزر پہنے ظاہر جعفر معمول کے مطابق پولیس کے حصار میں چلتے ہوئے آئے اور آج کوئی پاگل پن کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ نارمل رویے کے ساتھ عدالت میں کھڑے رہے۔
نور مقدم قتل کیس: حتمی دلائل کا آغاز ہو گیا
ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں نور مقدم کیس اختتامی مراحل میں داخل ہو گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں شریک ملزم ذاکر جعفر کے وکیل نے ان کی طرف سے دلائل مکمل کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ’میرے تو فرشتوں کو بھی علم نہیں کہ میرے پیچھے میرے گھر میں کیا ہو رہا ہے۔ میں مجرم ہوتا تو کیا میں ان کے پاس جاتا۔ پراسیکیوشن نے اپنے کیس میں شکوک وشبہات پیدا کیے ہیں۔‘
ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ نے ان کے دفاع میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’مجھے پولیس نے غیر قانونی طریقے سے گرفتار کیا میں عبوری ضمانت پر تھا۔ پولیس کی بدنیتی کو عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔‘ انہوں نے کہا کہ باپ بیٹے کی فون پر بات ہو بھی جاتی ہے تو وہ کوئی قیامت والی بات نہیں۔ پولیس نے کیس ثابت کرنا ہے جو سی ڈی آر کا ڈیٹا پیش کیا گیا وہ خود سے بنایا گیا ہے۔ ’پراسیکوشن کی بدنیتی دیکھیں کیا ضرورت تھی ان کو کہ کال ڈیٹا کی چار چار کاپیاں لیں۔ 14 اکتوبر کو انہوں نے چالان جمع ہونے کے بعد ڈیٹا کیسے بنا لیا؟‘
شریک ملزم ذاکر جعفر کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ ’ایف آئی اے کے ٹیکسٹ کو ثابت کرنے کے لیے عدالت کو ثبوت دینے ہیں۔ ہمارا 56 پیج کا ڈیٹا انہوں نے بعد میں تیار کر لیا اور نور مقدم کا ایک صفحہ کا ڈیٹا لیا۔ نور مقدم کا ایک سے زائد بار اپنی ماں سے رابطہ سی ڈی آر سے ثابت ہے۔ 24جولائی کو کس ثبوت کی بنا پر کیے گرفتار کیا گیا۔‘
وکیل نے مزید کہا کہ ’ذاکر جعفر اور شوکت مقدم کی دس منٹ کی بیس جولائی کو کی گئی کال موجود ہے اس پر تفتیشی افسر نے کچھ نہیں لکھا۔ تفتیشی افسر اگر پوچھ لیتا کہ تم نے دس منٹ کی گفتگو کی اس میں کیا بات ہوئی۔ پولیس نے اپنی تفتیش میں لکھا کہ وہ مستقل اس گھر میں آتی جاتی تھی۔ ایک گناہ گار کے ساتھ آپ نے بے گناہوں کو بھی شامل کر دیا ہے۔‘
وکیل نے مزید دلائل دیے کہ ’تفتیشی افسر کا کہنا ہے کہ شوکت مقدم نے کبھی بھی نہیں بتایا کہ اس کی ذاکر جعفر سے کوئی بات ہوئی۔ مزید کہا کہ جب پولیس کے پاس فزیکلی ریمانڈ پر ہو تو ملزم کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ بغیر سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھے کیسے ملزمان نامزد کردیے؟ 21 اگست کو اس کا بیان لکھا، ایک نمبر سے مقتولہ کی کالز ہیں، پولیس نے اس کو شامل تفتیش نہیں کیا۔ ٹیکنیکلی پولیس نے بہت کچھ کیا لیکن ریکارڈ پر کچھ نہیں لائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ذاکر جعفر کے وکیل نے ان کی حمایت میں مزید دلائل دیے کہ ’شوکت مقدم نور مقدم کی تلاش کے لیے ان کی دوست کے گھر گئے، اگر مجھ پر شک ہوتا تو میرے گھر آتے۔ شوکت مقدم کی لوکیشن راولپنڈی کی نہیں تھی جو ڈیٹا سے ثابت ہوئی۔ پورشن سرچ ہو گیا پھر موبائل کہاں سے آگیا۔ ڈی وی آر میں نور مقدم کا بیگ کپڑے اور دیگر چیزیں کہاں پر گئیں اس گھر تو کوئی آیا ہی نہیں۔ وکیل نے مزید بتایا کہ نہ نور مقدم کے موبائل کا ڈیٹا ہے نہ ظاہر جعفر کے موبائل کا ڈیٹا ملا ہے۔‘
ذاکر جعفر کے وکیل نے مزید کہا کہ ’شام سات بجے تک تو موبائل اس کے پاس ہے جب وہ گری تو بھی موبائل نور مقدم کے پاس تھا۔ ڈی وی آر کے مطابق اٹھارہ جولائی رات دس بجے وہ اکیلی اس گھر پر آئی۔ آج کل ساری کالز واٹس ایپ پر ہوتی ہیں کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں واٹس ایپ کال ریکارڈ نہیں ہوتی لیکن اگر پولیس واٹس ایپ کا ڈیٹا لیتی تو بہت ساری باتیں سامنے آتیں۔‘
طویل سماعت میں نور مقدم قتل کیس میں شریک ملزم ذاکر جعفر کے وکیل نے دلائل مکمل کر لیے۔ عدالت نے دیگر ملزمان کے وکلا کو 16 فروری کو دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
کیس کا سیاق و سباق
واضح رہے کہ بیس جولائی کی شام اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کا بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد ملزم کو موقع سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔ جب کہ ملزم ظاہر جعفر مشہور بزنس مین ذاکر جعفر کے صاحبزادے ہیں۔ پولیس نے 24جولائی کو جرم کی اعانت اور شواہد چھپانے کے جرم میں ملزم کے والدین ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی سمیت دو گھریلو ملازمین کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لیا تھا۔ ملزم کی والدہ کی ضمانت ہو چکی ہے جب کہ والد اور دیگر ملوث ملزمان اڈیالہ جیل میں ہیں۔ کیس میں اب تک کے تمام گواہوں کے بیانات اور جرح کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔