ترکی میں’صدر کی توہین‘کرنے پر منگل کو خاتون صحافی صدف کباس کا حراست میں دوسرا مہینہ شروع ہو گیا۔ ملک میں صدر کی توہین کے تیزی سے عام ہوتے جرم کے بارے میں مبصرین کا ماننا ہے کہ وہ صدارتی انتخاب سے 16 ماہ قبل تنقیدی آوازیں دبانے کا سبب بن رہا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے رپورٹ کیا ہے کہ غیر سرکاری تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق مبینہ جرم پر 52 سالہ صحافی صدف کباس کسی دوسرے صحافی کے مقابلے میں پہلے ہی جیل میں طویل وقت گزارچکی ہیں۔ 14 جنوری 2022 کو ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران کباس نے ایک پرانی کہاوت بیان کی جس کے مطابق وہ سر جس پر تاج سجا ہو عام طور پر زیادہ سمجھدار ہو جاتا ہے۔ کباس نے مزید کہا کہ’لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں ہے۔‘
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں یہ جملہ دہرایا جسے ترک صدر رجب طیب اردوغان اور ان کی حکومت کے لیے توہین آمیز سمجھا گیا۔ ٹوئٹر پر کباس کے فالورز کی تعداد نو لاکھ سے زیادہ ہے۔ دوہفتے بعد کباس پر باضابطہ طور پر الزام عائد کر دیا گیا۔ ان کی درخواست ضمانت مسترد کر دی گئی اور صدر اردوغان نے ان کے خلاف ڈھائی لاکھ لیرا (تقریباً 18 ہزار تین سو ڈالر) کے ہرجانے کا دعویٰ کر دیا۔
ترکی کی صحافی خاتون پر مقدمہ کی کارروائی 11 مارچ سے شروع ہو گی اور خدشہ ہے کہ انہیں صدر اور ان کے دو وزرا کی توہین کرنے پر مجموعی طور پر 12 سال 10 قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ ترکی میں رپورٹرز ودآؤٹ بارڈز کے نمائندے ایرول اوندراوغلو کے مطابق: ’یہ جمہوریت مخالف شاہ کی توہین‘کا قانون جبر کا آلہ بن گیا ہے جس سے حکومت کی آمرانہ پالیسی کا اظہار ہوتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اوندراوغلو کا ماننا ہے کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 299 کے تحت صدر کی توہین کے خلاف قانون حکومت کو اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ’تنقید کرنے والوں کو خاموش اور ذرائع ابلاغ کو کمزور بنائے۔‘اس لیے آر ایس ایف کا مطالبہ ہے کہ یہ قانون منسوخ کیا جائے۔ واضح رہے کہ صحافت کی آزادی کے حوالے سے ترکی آر ایس ایف کے انڈیکس میں 153 ویں نمبر پر ہے۔
نومبر میں انسانی حقوق کی یورپی عدالت اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ ایک اور ترک صحافی کو صدر کی توہین کرنے پر قید کرنا ان کے آزادی اظہار کے حق کی خلاف ورزی ہے۔
صدر اردوغان نے بھی کباس کے مقدمے پر بات کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ’سزا کے بغیر نہیں رہیں گی۔‘انہوں نے زور دیا کہ صدارتی دفتر کا’احترام کیا جائے اور اسے تحفظ فراہم کیا جائے‘ترک صدر کا اصرار تھا کہ اس معاملے کو آزادی اظہار کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔