امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کو روس پر یوکرین سے الگ ہونے والے دو شہروں میں اپنی فوج بھیجنے کی وجہ سے پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی صدر نےکہا ہے کہ روس نے اپنی فوج بھیج کر یوکرین میں مداخلت کی ہے۔
پابندیوں کے اطلاق سے امریکیوں پر یوکرین کی دونوں ریاستوں میں سے کسی سے بھی تجارتی یا سرمایہ کاری سے متعلق سرگرمی پر پابندی عائد ہوگی۔
روس کی جانب سے اس عمل کو امریکی صدر نے یوکرینی سر زمین پر روس کی مداخلت قرار دیا ہے۔
یوکرین سے علیحدہ ہونے والی ریاستیں دونیتسک اور لوہانسک یوکرین کے مشرقی حصے میں واقع ہیں۔ اس سے قبل روسی صدر ولادی میر پوتن نے دونوں ریاستوں کی خود مختاری تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ نے روسی ہم منصب سرگئے لاوروف سے
آئیندہ جمعرات کو ہونے والی ملاقات کو منسوخ کر دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ روسی اقدامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے اس نے سفارت کاری کو رد کر دیا ہے۔
اس سے قبل روسی پارلیمان کے ایوان بالا نے منگل کو صدر ولادی میر پوتن کو ملک سے باہر فوجی طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی تھی۔ صدر پوتن نے ایوان کو خط لکھ کر یہ اجازت طلب کی تھی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق صدر پوتن کی طرف سے پارلیمنٹ کے ایوان بالا کو لکھے گئے خط سے مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں روسی فوج کی تعینات کو رسمی شکل مل جائے گئی ہے۔ یہ خط روسی رہنما کی طرف سے باغیوں کے زیر انتظام علاقوں کی آزادی تسلیم کرنے کے ایک دن بعد لکھا گیا۔
اے ایف پی کے مطابق مجموعی طور پر 153 روسی سینیٹرز نے فیصلے کے حق میں ووٹ دیا۔ کسی سینیٹر نے مخالفت نہیں اور نہ ہی کسی نے ووٹ دینے سے گریز کیا۔ فیصلے کے تحت صدر پوتن کو یوکرین میں علیحدگی پسندوں کی مدد کے لیے روسی فوج کے بیرون ملک استعمال کی اجازت دے گئی ہے۔
اس خط سے پوتن کی طرف سے یوکرین پر وسیع تر حملے کے ارادے کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اس سے پہلے مغربی رہنماؤں نے کہا تھا کہ روسی مشرقی یوکرین پہنچ چکی ہے۔ امریکہ نے اس عمل کو حملہ قرار دیا۔
اس سے پہلے منگل کی صبح پوتن نے باغیوں کے زیر انتظام علاقوں کے ساتھ دوستی کے معاہدوں پر دستخط کیے جس سے وہاں روسی فوج کی تعیناتی کی راہ ہموار ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے منگل کو مشرقی یوکرین میں روسی فوج کی تعیناتی کو’حملہ‘قرار دیا ہے۔ امریکہ ابتدائی طورپر حملے کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کرتا رہا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن یوکرین پر روسی حملے کو سرخ لکیر قرار دے کہہ چکے ہیں اس کے نتیجے میں امریکہ ماسکو پر سخت پابندیاں عائد کر دے گا۔
اس سے پہلے منگل کو کئی یورپی رہنما کہہ چکے ہیں کہ پوتن کی طرف سے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں کو تسلیم کیے جانے کے بعد روسی فوج وہاں پہنچ چکی ہے۔ تاہم بعض مغربی رہنماؤں نے اشارہ دیا تھا کہ روس کا یہ عمل کوئی مکمل حملہ نہیں ہے جس کا عرصے سے خوف چلا آ رہا ہے۔ بعد میں وائٹ ہاؤس نے اپنے مؤقف میں تبدیلی کا اشارہ دیا۔
امریکی صدر کے قومی سلامتی کے پرنسپل نائب مشیر جون فائنر کے مطابق: ’ہمارا خیال ہے کہ ہاں یہ حملے کا آغاز ہے، روس کی یوکرین پر تازہ ترین چڑھائی۔ حملہ، حملہ ہوتا ہے اور یہی کچھ ہو رہا ہے۔‘
ایک امریکی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ زمینی صورت حال کی وجہ سے امریکہ نے روسی اقدام کو’حملہ‘کہنا شروع کر دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ نے ابتدائی طور پر روسی فوجیوں کی تعیناتی کی مخالفت کی کیونکہ وائٹ ہاؤس یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ روس اصل میں کیا کرنے جا رہا ہے۔ روسی فوجیوں کی نقل و حرکت کا جائزہ لینے کے بعد واضح ہو گیا کہ یہ ایک نیا حملہ تھا۔