ان حالات میں روس کے دورے سے کیا مقصد حاصل ہو گا؟

یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عالمی بحران کے دوران، جس کی وجہ سے عالمی جنگ چھڑنے کا خطرہ ہے، روسی فیصلہ ساز باہمی تعلقات عامہ کے عام دورے کو کوئی خاص توجہ دے پائیں گے؟

اس سے قبل عمران خان اور ولادی میر پوتن کے درمیان 14 جون 2019 کو قرغیزستان کے شہر بشکیک میں ملاقات ہو چکی ہے (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے نیچے کلک کیجے

 

اس وقت جب روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے اور مغربی ممالک یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ روس نے یوکرین پر قبضے کے لیے فوجی کارروائی شروع کر دی ہے، پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کا دورۂ روس حیرت انگیز ہے۔

یہ دورہ پاکستان اور روس کے باہمی تعلقات میں ایک اہم پیش رفت ضرور ہے مگر اس کے وقت کا انتخاب شاید اس دورے سے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کی راہ میں آڑے آ جائے۔ اس وقت ساری دنیا کی نظریں روس پر اس کے یوکرین کے خلاف جارحانہ اقدامات پر مرکوز ہیں جس کی وجہ سے عالمی امن ایک خطرناک صورت حال سے دوچار ہے، اور عالمی رہنما بڑے پیمانے پر جنگ پھوٹ پڑنے کے اندیشے سے پریشان ہیں اور ساری توانائیاں اس تنازعے کو بڑھنے سے روکنے پر مرکوز ہیں۔

اس لیے ہمارے وزیراعظم کا عالمی امن کو درپیش اس خطرناک موڑ پر روس کا سفر کرنا کچھ عجیب سا دکھائی دیتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عالمی بحران کے دوران، جس کی وجہ سے عالمی جنگ چھڑنے کا خطرہ ہے، روسی فیصلہ ساز باہمی تعلقات عامہ کے عام دورے کو کوئی خاص توجہ دے پائیں گے؟

امید ہے کہ وزیراعظم اس دورے کے ذریعے دونوں ملکوں کے نیم گرم تعلقات میں ضروری گرم جوشی پیدا کر سکیں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وزیر اعظم اپنے وزارت خارجہ کے تحریر شدہ مذاکراتی نکات پر قائم رہیں اور زبانی بیانات کی بجائے تحریر شدہ بیانات پر انحصار کریں۔

اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ روس نے اس بحرانی وقت میں اس دورے کی آناً فاناً دعوت ہی کیوں دی؟ ایسا لگتا ہے کہ روس اس عالمی قضیے کے دوران اقوام عالم میں ایک معمول کے مطابق کاروبار کا تاثر دینا چاہتا ہے اور شاید اسی لیے بحرانوں میں پھنسے پاکستان کے وزیراعظم کا انتخاب کر کے انہیں دورے کی دعوت دی گئی۔

وزیراعظم پاکستان کی حکومت بھی بےتحاشا اندرونی سیاسی اور معاشی بحرانوں سے گھری ہوئی ہے اور شاید اس دورے کی دعوت اس لیے حاصل کی گئی کہ عوام کی توجہ ان اندرونی بحرانوں سے ہٹائی جا سکے۔

حال ہی میں وزیر خارجہ کی کارکردگی پر سوال اٹھے کیونکہ انہیں بہتر کارکردگی دکھانے والے پہلے دس وزرا میں شامل نہیں کیا گیا اور شاید اسی وجہ سے انہوں نے اپنی کارکردگی کا اظہار کرنے کے لیے سرمائی اولمپکس کے دوران دورہ چین میں اپنے روسی ہم منصب سے اس سلسلے میں بات کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیوں کہ روس کو بھی اپنے بین الاقوامی تاثر کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور روس زیادہ سے زیادہ ممالک کے رہنماؤں کو ماسکو میں دیکھنا چاہتا ہے تو شاید اسی لیے اس باہمی مفاد کی وجہ سے اس دورے کی دعوت دے دی گئی۔

کچھ مبصرین سمجھتے ہیں کہ ہمارا اس دورے کی دعوت حاصل کرنے کی کوشش کے پیچھے شاید امریکہ کو یہ پیغام دینے کی بھی کوشش ہے کہ ہمارے پاس دوسرے راستے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات میں اس دورے سے شاید کچھ زیادہ سفارتی فوائد حاصل نہ ہوسکیں مگر کوشش ہونی چاہیے کہ اس سے زیادہ نقصان بھی نہ ہوں۔ ہمیں اس دورے سے کسی طرح بھی یہ تاثر دینے کی ضرورت نہیں کہ اگر صدر بائیڈن ہمیں فون نہیں کرتے تو ہمارے پاس صدر ولادی میر پوتن کے فون تک رسائی ہو گئی ہے۔ ایسا تاثر ہمارے لئے آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی شکل میں مزید معاشی مشکلات کا اضافہ کر سکتی ہے۔

اگر دورے کی دعوت حاصل کرنے کے طریقے کی اطلاعات درست ہیں تو اس طرح کے عالمی بحرانوں کے دوران ہمارے وزیر خارجہ کو زیادہ پختگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے نہ کہ کچھ ذاتی قلیل مدتی فوائد اٹھانے کے لئے ایسے قدم اٹھائے جائیں جو بظاہر انہیں سیاسی طور پر مضبوط تو کریں لیکن ملک کے وسیع تر مفادات کے لیے سود مند نہ ہوں۔

باہمی تعلقات میں ہمیشہ سے اعتماد کا فقدان

روس اور پاکستان میں ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان ہمیشہ سے رہا ہے۔ ہمارے تعلقات میں ایک وقت اتنی کشیدگی بڑھی کہ 60 کی دہائی میں روسی رہنما خروسشیف نے عالمی نقشے میں پاکستان کے شہر پشاور کے ارد گرد سرخ دائرہ لگا دیا تھا۔

اس سے ایک طرح کا اعلان کر دیا گیا کہ اگر اس شہر سے امریکی جاسوسی طیاروں نے پروازیں جاری رکھیں تو اس شہر کو روسی جارحیت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کیونکہ ہمارا تعلق مغربی بلاک کے ساتھ رہا تو روس نے ہمیشہ پاکستانی مقاصد کو شک کی نگاہ سے دیکھا۔ ہمارے تعلقات میں قدرے بہتری وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئی جب پاکستان نے غیر جانبدارانہ پالیسی کی ابتدا کی اور دنیا کے ممالک سے باہمی تعلقات بہتر کرنے پر زور دیا۔ ان تعلقات میں وسعت پیدا کرتے ہوئے روس (سابقہ سوویت یونین) نے پاکستان میں صنعتی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لیے کراچی میں سٹیل مل کی تعمیر کی ابتدا کی جس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق سوویت یونین نے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی۔ تعلقات میں یہ قلیل مدتی بہتری ضیاءالحق کی بغاوت کے بعد واپس 60 کی دہائی کی مخاصمت میں چلی گئی اور پاکستان زور و شور کے ساتھ مغرب کی سوویت مخالف تحریک میں شامل ہو گیا جو سوویت یونین کی افغانستان میں شکست اور آخر کار اس کی تحلیل کا باعث بنی۔

ہمارے تعلقات میں سوویت یونین کی تحلیل کے باوجود کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں واقع ہوئی۔ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان واپس امریکہ کے کیمپ میں آ گیا جس کی وجہ سے ہمارے فیصلہ سازوں نے روس سے تعلقات میں بہتری پر کوئی خاص توجہ بھی نہیں دی۔ اسی طرح روس کی طرف سے بھی تعلقات میں بہتری کے لیے کوئی خاص گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا گیا۔

ہمارے باہمی تعلقات میں اہم پیش قدمی پچھلی دو جمہوری حکومتوں کے وقت شروع ہوئی جب سابق صدر زرداری نے 2011 میں روس کا سرکاری دورہ کیا۔ اس کے بعد آنے والی حکومت نے صدر پوتین کی پاکستان دورے کیلئے کافی کوششیں کیں جو بار آور ثابت نہیں ہوئیں۔ ایک دفعہ تو صدر پوتن کا دورہ آخری وقت نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر ملتوی کر دیا گیا۔

ایسا نہیں لگتا کہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری کشیدگی سے ہمیں اس دورے سے کچھ بہت بڑے بین الاقوامی سیاسی  فوائد حاصل ہو سکیں گے۔ بہرحال ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روس کو پاکستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں ضروری ہو گا کہ ہم مکمل تیاری کے ساتھ روسی سرمایہ کاری کے لیے مختلف ممکنہ منصوبوں کی مکمل تفاصیل روسی قیادت کو مہیا کر سکیں۔


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی