روس کے صدر ولادی میرپوتن نے ملک کی فوجی کمان کو حکم دیا ہے کہ دفاعی فورسز کے وہ یونٹ جن میں جوہری ہتھیار بھی شامل ہیں، کو انتہائی چوکس کر دیا جائے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدر پوتن نے یہ حکم نیٹو رہنماؤں کے جارحانہ بیانات اور معاشی پابندیوں کے تناظر میں دیا۔
صدر پوتن نے سرکاری ٹیلی ویژن پر کہا: ’جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ نہ صرف مغربی ملک ہمارے خلاف معاشی سمت میں غیر دوستانہ اقدامات کر رہے ہیں، میرا مطلب ہے کہ غیر قانونی پابندیاں لگا رہے ہیں جن کے بارے میں ہر کوئی اچھی طرح جانتا ہے، بلکہ نیٹو کے اعلیٰ رہنما ہمارے ملک کے حوالے سے جارحانہ بیانات جاری کر رہے ہیں۔‘
پاکستان کے وزیر خارجہ کا اپنے یوکرینی ہم منصب کو فون
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اتوار کو اپنے یوکرینی ہم منصب دیمیٹرو کولیبا سے ٹیلیفون پر رابطہ کرتے ہوئے کشیدگی میں کمی کی اہمیت اور سفارت کاری کی ناگزیریت پر زور دیا۔
دفتر خارجہ کے جاری بیان میں بتایا گیا کہ وزیر خارجہ قریشی نے گفتگو کے دوران پاکستان کے نقطہ نظر کو تفصیل سے شیئر کیا۔
بیان کے مطابق: ’وزیر خارجہ نے نوٹ کیا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے حالیہ دورہ ماسکو میں روس اور یوکرین کے درمیان تازہ ترین صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان کو امید ہے کہ سفارت کاری سے فوجی تنازع کو ٹالا جاسکتا ہے۔
’انہوں نے زور دے کر کہا کہ تنازعہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے، اور یہ کہ ترقی پذیر ممالک ہمیشہ تنازعات کی صورت میں معاشی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
’وزیر خارجہ نے پاکستان کے اس یقین پر زور دیا کہ تنازعات کو مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔
شاہ محمود قریشی نے یوکرین میں پاکستانی برادری اور طلبا کے انخلا اور ان کی بحفاظت پاکستان واپسی کا اہم معاملہ بھی اٹھایا۔
انہوں نے انخلا کے عمل میں یوکرینی حکام کی طرف سے ادا کیے گئے کردار کو سراہا اور جلد از جلد سہولت فراہم کرنے اور ہموار سرحدی گزر گاہ کے لیے کہا۔
دشمن ہر چیز تباہ کرنا چاہتا ہے: مئیر خارکیو
روسی فوج نے یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیو میں قدرتی گیس کی پائپ لائن کو دھماکے سے اڑا دیا ہے۔ شہر کی میئر نطالیہ بلاسینووچ کے بقول: ’دشمن ہر چیز کو تباہ کر دینا چاہتا ہے۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یوکرین کے صدر وولودی میرزیلنسکی کا کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کسی یورپی ملک پر سب بڑا حملہ چوتھے روز میں داخل ہو گیا ہے۔
یوکرینی صدر کے مطابق گذشتہ رات بہت سخت تھی جس میں شہری تنصیبات اور اہداف کو نشانہ بنایا گیا جن میں ایمبولینس گاڑیاں بھی شامل ہیں۔
یوکرین کے صدر وولودی میرزیلنسکی نے اتوار کو کہا ہے کہ روس کا حملہ رکوانے کے لیے یوکرین نے اس کے خلاف ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف کے پاس شکایت جمع کروا دی ہے۔
یوکرین نے صدر نے ایک ٹویٹ میں کہا: ’جارحیت کا جواز فراہم کرنے کے لیے نسل کشی کو بہانہ بنانے پر روس کا لازمی طور پر محاسبہ ہونا چاہیے۔ ہماری درخواست ہے کہ فوری طور پر فیصلہ کرتے ہوئے اس وقت روس کو فوجی سرگرمی سے روکا جائے اورہمیں امید ہے کہ شکایت کی سماعت اگلے ہفتے سے شروع ہو جائے گی۔‘
یوکرین کی نائب وزیر دفاع ہنہ ملیار نے اتوار کو کہا ہے کہ یوکرین پر حملے کے بعد روس کے 4300 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں تاہم ان فوجی ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق کی جا رہی ہے۔
خبر رساں روئٹرز کے مطابق یوکرین کی نائب وزیر دفاع نے اپنے فیس بک پیج پر کہا ہے کہ لڑائی میں روسی فوج کے تقریباً 146 ٹینک، 27 طیارے اور 26 ہیلی کاپٹر تباہ ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب اتوار کو روسی فوج نے یوکرین کی تیل اور گیس کی تنصیبات پر حملہ کیا جس سے سے زوردار دھماکے ہوئے اور شعلے بلند ہوئے۔ روسی فوج نے دوسرے بڑے شہر خارکیو میں قدرتی گیس کی پائپ لائن کو دھماکے سے اڑا دیا ہے۔ شہر کی میئر نطالیہ بلاسینووچ کے بقول: ’دشمن ہر چیز کو تباہ کر دینا چاہتا ہے۔‘
ادھر مغربی اتحادیوں نے روس پر پابندیاں سخت کرتے ہوئے اس کے بعض بڑے بینکوں کو ادائیگیوں کے عالمی نظام’سوئفٹ‘سے نکال دیا ہے۔
یوکرین میں جاری لڑائی میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد واضح نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی نے 64 شہری ہلاکتیں رپورٹ کی ہیں۔ دوسری جانب ایک لاکھ سے زیادہ پناہ گزین جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں ہمسایہ ملکوں میں پہنچ چکے ہیں۔ ملک چھوڑنے والوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے ریل گاڑیوں، سڑکوں اور سرحدوں پر رش ہے۔
اے ایف پی کے مطابق برطانوی وزیر خارجہ لِز ٹرس نے اتوار کو خبردار کیا کہ روس اور یوکرائن کا تنازع’کئی سال‘تک جاری رہ سکتا ہے اور دنیا کو ماسکو کی طرف’اس سے بھی بدتر ہتھیاروں کے استعمال کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔‘
ٹرس نے سکائی نیوز سے بات چیت میں کہا: ’مجھے ڈر ہے کہ یہ لڑائی لمبے عرصے تک چلے گی۔ یہ کئی سال جاری رہ سکتی ہے۔‘
یوکرین کے شہر خارکیو کے علاقائی حکام کا کہنا ہے کہ روسی فوج یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیو میں داخل ہو گئی ہے اور اتوار کو بھی شہر میں لڑائی جاری ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق علاقائی سربراہ اولیگ سینیگوبوف کے مطابق ’دشمن کی ہلکی گاڑیاں خارکیو شہر میں داخل ہوچکی ہیں۔‘
انہوں نے ایک فیس بک پوسٹ میں رہائشیوں کو پناہ گاہوں سے باہر نہ نکلنے کی تاکید کی ہے۔
انتظامیہ کے مطابق ’یوکرین کی مسلح افواج دشمن کو ختم کر رہی ہیں۔‘
خارکیف میں لڑائی کے دوران، مغرب میں 400 کلومیٹر کے فاصلے پر، کیئف میں شہری انتظامیہ نے کہا ہے کہ ’تخریب کار گروپوں‘ کے ساتھ جھڑپوں کے باوجود دارالحکومت مکمل طور پر یوکرینی افواج کے کنٹرول میں ہے۔
روسی وزارت دفاع نے اتوار کو دعویٰ کیا ہے کہ اس کے فوجیوں نے جنوبی یوکرین کے شہر خرسون اور جنوب مشرق میں بردیانسک شہر کا محاصرہ کر لیا ہے۔
وزارت دفاع کے ترجمان ایگور کوناشینکوف نے ایک بیان میں کہا کہ ’گذ شتہ 24 گھنٹوں کے دوران روسی مسلح افواج نے خرسون اور بردیانسک شہروں کو مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ روسی فوجیوں نے بحیرہ ازوف کے ساتھ واقع ساحلی شہر جنیچسک اور خرسون کے قریب ایک ہوائی اڈے پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
روسی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے اتوار تک یوکرین میں 975 فوجی تنصیبات کو تباہ کر دیا ہے اور آٹھ لڑاکا طیارے، سات ہیلی کاپٹرز اور 11 ڈرون مار گرائے ہیں۔
کوناشینکوف نے دعویٰ کیا کہ یوکرین کے فوجی ’بڑے پیمانے پر‘ ہتھیار ڈال رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز خارکیو کے قریب فضائی دفاعی میزائل رجمنٹ کی افواج نے ’رضاکارانہ طور پر‘ اپنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 470 سے زائد یوکرینی فوجیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
ان میں سے کسی بھی دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں ہوئی اور یوکرین کا اصرار ہے کہ اس نے کریملن کی افواج کو بھاری جانی نقصان پہنچایا ہے۔
دوسری جانب روسی صدر ولادی میر پوتن نے اتوار کے روز خصوصی افواج کے ارکان کو ان کی پیشہ ورانہ خدمات پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یوکرین میں ’بہادری سے‘ لڑائی کی ہے جبکہ کریملن نے زور دیا کہ وہ کیئف کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔
صدر پوتن نے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا ’ان لوگوں کا خصوصی شکریہ جو ان دنوں ڈونبیس کی عوامی جمہوریہ کو مدد فراہم کرنے کے لیے ایک خصوصی آپریشن کے دوران بہادری کے ساتھ اپنا فوجی فرض پورا کر رہے ہیں۔‘
اس کے علاوہ، کریملن کے ترجمان دمتری پیشکوف نے روسی خبر رساں اداروں کو بتایا کہ روس یوکرین کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماسکو کا ایک وفد بیلاروسی شہر گومیل پہنچ چکا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ یوکرین کے فوجیوں کی غیر متوقع طور پر سخت مزاحمت کی وجہ سے روسی حملہ آوروں کو مایوسی کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پینٹاگون کے سینئیر اہلکار کا کہنا ہے کہ ’امریکہ اور مغربی اتحادی اب بھی یوکرین کی فوج کو تقویت دینے کے لیے اسے ہتھیار پہنچانے کے قابل ہیں اور واشنگٹن آنے والے دنوں میں مزید ہتھیار بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ انھیں زمین پر روسی ہتھیاروں اور فضائی حملوں دونوں سے لڑنے میں مدد ملے۔‘
پینٹاگون کی معلومات کے مطابق روس کے پاس اب یوکرین کے اندر اپنی وسیع حملہ آور قوت کی کم از کم 50 فیصد تعداد موجود ہے۔
اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’غیر متوقع طور پر سخت مزاحمت کی وجہ سے روسی فوج اپنے اصل تین محاذوں پر سست روی سے پیش رفت کر رہی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں ایسے اشارے ملے ہیں کہ روسی گزشتہ 24 گھنٹوں میں خاص طور پر یوکرین کے شمالی حصوں میں اپنی رفتار کی کمی کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔‘
دوسری جانب ہفتے کے روز روسی وزارت دفاع نے اعلان کیا تھا کہ ’کیئف کی طرف سے روس کے اتحادی بیلاروس میں مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کرنے کے بعد روسی فوج کو اپنی کارروائی کو وسیع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘
روسی فوج کے ترجمان ایگور کوناشینکوف نے اعلان کیا کہ ’آج تمام یونٹوں کو آپریشن کے منصوبوں کے مطابق تمام سمتوں سے پیش قدمی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘
یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ روس کے حملے کے بعد سے 198 شہری، جن میں تین بچے بھی شامل ہیں، مارے جا چکے ہیں۔
ادھر یوکرینی صدر وولودی میر زیلنسکی نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ان کا ملک کریملن کے سامنے کبھی دست بردار نہیں ہوگا۔
امریکہ کا مزید ہتھیار بھیجنے کا اعلان
پینٹاگون اہلکار کے مطابق ایک لاکھ 50 ہزار سے زیادہ فوجیوں، بھاری ہتھیاروں اور میزائلوں اور فضائی قوت کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے روسی حملے نے اتنی تیزی سے پیش رفت نہیں کی جتنی جمعرات کی صبح تک دیکھنے میں آئی تھی۔
امریکی اہلکار نے کہا ’یوکرینی فضائی دفاع، بشمول ہوائی جہاز، قابل عمل ہیں اور ملک بھر میں روسی طیاروں کا سامنا کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یوکرین بھیجے جانے والے ہتھیاروں کی اس کھیپ میں بکتر بند، ہوائی جہاز اور دیگر خطرات سے نمٹنے میں مدد کرنے کے لیے مزید مہلک دفاعی امداد شامل ہوگی۔‘
یاد رہے یوکرین کی فوج نے ہفتے کو کہا تھا کہ اس نے دارالحکومت پر روسی حملہ روک دیا ہے لیکن شہر میں داخل ہونے والے روسی حملہ آوروں سے جھڑپیں جاری ہیں۔
یورپی ممالک کی روس کے مالیاتی اداروں پر پابندیاں:
امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے ہفتے کو ماسکو کو یوکرین پر حملے کی سزا دینے والی غیر معمولی پابندیاں عائد کر کے روس کے بینکنگ سیکٹر اور کرنسی کو مفلوج کرنے کی کوشش کی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق روس جیسے بڑے اور بین الاقوامی طور پر قدآور ملک کے خلاف بے مثال اقدامات کرتے ہوئے اتحادیوں نے سوئفٹ نظام سے منتخب روسی بینکوں کو علیحدہ کر دیا ہے اور انہیں باقی دنیا سے کاٹ دیا ہے۔
انہوں نے روسی مرکزی بینک کی پہلے سے گراں قدری کے شکار روبل کو سہارا دینے کے لیے ذخائر کو استعمال کرنے کی صلاحیت کو روکا ہے جس کے بارے میں ایک سینیئر امریکی اہلکار نے کہا کہ اب وہ ’فری فال‘ ہوگا۔
ایک امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ ’انہیں متنبہ کر دیا گیا ہے کہ ایک ٹاسک فورس صدر ولادی میر پوتن کے انتہائی امیر اندرونی دائرے میں موجود امرا کی ملکیت میں دنیا بھر میں موجود یاٹس، جیٹ طیارے، فینسی گاڑیاں اور لگژری گھروں کا ’شکار‘ کرے گی۔‘
ان اقدامات کو امریکہ، کینیڈا، یورپی کمیشن، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی کی حمایت حاصل ہے۔
صدر پوتن کے اقتدار پر دو دہائیوں کی طویل گرفت کے دوران روس کے خلاف عائد کردہ پابندیوں سے کہیں زیادہ پابندیاں اس وقت لگیں جب روسی فوج نے کیئف اور یوکرائن کے دیگر شہروں کے خلاف اپنے خونی، کثیر الجہتی حملے کو تیز کیا تھا۔
صدر پوتن کا کہنا ہے کہ حملے کا مقصد ایک ایسے ملک پر کنٹرول بحال کرنا ہے جس پر طویل عرصے سے روس کا غلبہ تھا لیکن اب وہ مغربی اداروں میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
عالمی طاقتوں کے گروپ نے ایک بیان میں کہا کہ ’روس پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو روس کو بین الاقوامی مالیاتی نظام اور ہماری معیشتوں سے مزید الگ تھلگ کر دے گا۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم اس تاریک گھڑی میں یوکراینی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان اقدامات کے علاوہ جن کا آج اعلان کر رہے ہیں، ہم روس کو یوکرین پر حملے کے لیے جوابدہ بنانے کے لیے مزید اقدامات کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
’مفلوج‘ روسی مرکزی بینک
اس ہفتے کے آغاز میں مغربی ممالک نے پابندیاں لگانے کے پہلے مرحلے میں پوتن اور ان کے وزیر خارجہ سرگے لاوروف کے خلاف ذاتی طور پر پابندیاں لگائی تھیں۔
انہوں نے سب سے بڑے روسی بینکوں کو بھی نشانہ بنایا اور قدرتی گیس کے لیے توانائی سے مالا مال روس کی قیمتی نئی برآمدی پائپ لائن کو مؤثر طریقے سے روک دیا تھا جسے ’نورڈ سٹریم ٹو‘ کہا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوئفٹ نظام سے کٹ جانے کے بعد منتخب روسی بینک اس دور میں واپس چلے گئے ہیں جب ہر بار لین دین کے موقع پر فیکس مشین یا ٹیلی فون استعمال کرنا پڑے گا اور اس طرح وہ روس سے باہر اپنی تجارت کو روک دیں گے۔
جرمن حکومت کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ فی الحال سوئفٹ اقدام روسی بینکنگ نیٹ ورک کے صرف ایک یا منتخب حصے کا احاطہ کرتا ہے لیکن اسے بڑھایا بھی جاسکتا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ’اس کا مقصد ان اداروں کو بین الاقوامی مالیاتی بہاؤ سے منقطع کرنا ہے، جس سے ان کی عالمی کارروائیوں کو بڑے پیمانے پر محدود کر دیا جائے گا۔‘
روسی مرکزی بینک پر پابندیوں کا مقصد حکومت کو گرتے ہوئے روبل کو سہارا دینے کے لیے اپنے بڑے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو استعمال کرنے سے روکنا ہے۔
صرف پوتن فیصلہ کر سکتے ہیں
دولت مند روسیوں کا مغرب بھر میں لگژری اثاثوں میں اپنے خزانوں کی حفاظت کرنے کا طریقہ کار بھی پابندیوں کی زد میں آئے گا۔
یورپی شہریت حاصل کرنے کے لیے نام نہاد گولڈن پاسپورٹ سسٹم کو ختم کر دیا جائے گا، جب کہ امریکہ یورپی یونین ’ٹاسک فورس‘ چھپی ہوئی دولت کی شناخت اور اسے منجمد کرنے کی کوشش کرے گی۔
امریکی اہلکار نے کہا کہ پوٹن کے اتحادی اپنے آپ کو غیر ملکی آسائشوں سے روک لیں گے بشمول اپنے بچوں کو مغرب کے مہنگے کالجوں میں بھیجنے کی ان کی اہلیت بھی ختم ہوجاآئے گی۔
مغربی اتحادیوں نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ غلط معلومات اور ’ہائبرڈ وارفیئر‘ کی دوسری شکلوں کے خلاف بھی ہم آہنگی کا ارادہ رکھتے ہیں جسے پوتن نے مغرب کے ساتھ اپنے بڑھتے ہوئے خطرناک تصادم میں استعمال کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یورپی یونین کمیشن کی صدر ارسلا وین ڈیر لیین کا کہنا ہے کہ ’پوتن اس راستے پر چل پڑے ہیں جس کا مقصد یولین کو تباہ کرنا ہے لیکن وہ اس کے ساتھ اور کیا کر رہے ہیں، دراصل وہ اپنے ملک کا مستقبل بھی تباہ کر رہے ہیں۔‘
روس کا اپنی فوج کو یوکرین میں پیش قدمی کا حکم
ماسکو نے اپنے فوجیوں کو یوکرین میں ’ہر سمت‘ سے پیش قدمی کا حکم دیا ہے جب کہ مغرب نے ہفتے کو پابندیوں کے ساتھ جواب دیا جس نے روس کے بینکنگ سیکٹر کو معذور کرنے کی کوشش کی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یوکرین کے حکام نے بتایا کہ جمعرات کو روس کے حملے کے بعد سے 198 شہری ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں تین بچے بھی شامل ہیں اور انہوں نے متنبہ کیا کہ روسی تخریب کار کیئف میں سرگرم ہیں جہاں دھماکوں نے رہائشیوں کو جگہ چھوڑ دینے پر مجبور کیا ہے۔
ماسکو کا کہنا ہے کہ اس نے فوجی اہداف پر کروز میزائل فائر کیے ہیں۔ روس نے یوکرین پر مذاکرات کو ’مسترد‘ کرنے کا الزام لگانے کے بعد جارحانہ کارروائی جاری رکھی ہوئی ہے۔
لیکن روس کے حملے کے تیسرے دن یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کا ملک کبھی بھی کریملن کے سامنے نہیں جھکے گا کیوں کہ واشنگٹن نے کہا کہ حملہ آور قوت میں ’طاقت کی کمی‘ ہے۔
یوکرین کی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے دارالحکومت پر حملہ روک دیا ہے لیکن وہ روسی ’تخریب کار گروپوں‘ سے لڑ رہی ہے جو شہر میں گھس آئے تھے۔
زیلنسکی نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’ہم اس وقت تک لڑیں گے جب تک ہم اپنے ملک کو آزاد نہیں کر لیتے۔‘
انہوں نے اس سے قبل کہا تھا کہ یوکرین نے ماسکو کے ان کا تختہ الٹنے کے منصوبے کو ’پٹری سے اتار دیا‘ ہے اور روسیوں پر زور دیا تھا کہ وہ صدر ولادی میر پوتن پر حملے کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔
اُدھر پینٹاگون کا اندازہ ہے کہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مضبوط حملہ آور فوج جو ماسکو نے حالیہ مہینوں کے دوران یوکرین کی سرحد پر تعینات کی ہوئی تھی اب یوکرین میں داخل ہو چکی ہے۔
ایک امریکی اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران روسی فوج کی پیش قدمی سست ہے اور اس نے یوکرین پر اب تک فضائی برتری بھی حاصل نہیں کی ہے۔