سندھ کے شہر کراچی سے متصل بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں دو اضلاع بنانے کی تجویز پر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال، جن کا حلقہ انتخاب بھی اسی ضلع میں ہے، نے گذشتہ دنوں ایک قبائلی جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’اگر آپ لسبیلہ کے اندر اس کے مفاد اور بقا پر ہاتھ ڈالیں گے تو جام کمال کا ہاتھ آپ کے گریبان پر ہوگا۔‘
انہوں نے کہا، ’مہربانی کرکے آپ اس کو دھمکی سمجھیں۔ میں کسی سے نہیں ڈرتا۔ کوئی سمجھے شاید یہ جام کمال کے منہ سے غلطی سے نکل گیا، میں سوچ سمجھ کر صالح بھوتانی آپ سے مخاطب ہوں۔‘
بلوچستان کے سیاسی افق پر ضلع لسبیلہ سے بھوتانی برادری اور جام کمال ہمیشہ سے منظرعام پر رہے ہیں۔ جن کی اکثر چیزوں پر اختلاف رائے رہتی ہے لیکن حالیہ معاملےمیں جام کمال کا رویہ سخت نظر آتا ہے۔
ضلع لسبیلہ سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے سردار صالح بھوتانی پی بی 45 لسبیلہ ون کی نشست سے کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ سابق وزیراعلیٰ جام کمال پی بی 50 لسبیلہ ٹو کی نشست سے کامیاب ہوئے تھے۔
یہ دونوں رہنما اس سے قبل بھی ممبر صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی بھی منتخب ہوتے رہے ہیں۔ جو علاقے کے مشہور رہنماؤں میں سے ہیں۔
تنازعہ کیا ہے؟
بلوچستان صوبائی اسمبلی کے کابینہ کا اجلاس گذشتہ ماہ کے شروع میں منعقد کیا گیا تھا۔ جس میں متعدد قانون پاس کیے گئے تھے۔ جن میں سردار صالح بھوتانی کی ضلع لسبیلہ کو دو اضلاع میں تقسیم کی تجویز بھی شامل تھی۔
جس کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے اس تجویز کی منظوری دیدی ہے۔ تاہم سرکاری طور پر کابینہ کے اجلاس کی جاری ہونے والی خبر میں اس کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔ تاہم جام کمال نے اپنے جرگے سے خطاب کے دوران مطالبہ کیا کہ سردار صالح بھوتانی وزیراعلیٰ بلوچستان سے کہیں کہ اس پروپوزل کو واپس لیں۔
لسبیلہ یونیورسٹی کے ڈین فیکلٹی سوشل سائسنز سید منظور احمد سمجھتے ہیں کہ بڑے فیصلے ہمیشہ سوچ سمجھ کر اور تمام فریقین کے مشاورت سے کرنے چاہیے۔
سید منظور احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کسی بھی ضلع کی تقسیم کا فیصلہ عموماً انتظامی امور کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ جو بلوچستان میں اکثر ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔ نئے ضلع اور ڈویژن بنائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیاست معاشرے کا حصہ ہے۔ منتخب نمائندے ہی ضلعوں کی تقسیم کے حوالے سے تجاویز پیش کرتے ہیں۔ ہمیں سیاسی فیصلوں کو منفی انداز میں نہیں دیکھنا چاہیے۔
منظور احمد کہتے ہیں کہ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ سیاسی بنیاد پر ہونے والے فیصلوں کے فائدے عوام تک نہیں پہنچتے ہیں۔ اگر کسی سیاسی فیصلے کے نتیجے میں کوئی ضلع دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جس سے عوام کو بعض اداروں تک رسائی میں آسانی ہوتی ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
لسبیلہ کیوں اہم ہے؟
منظور احمد کہتے ہیں کہ ضلع لسبیلہ بلوچستان کا سب سے اہم علاقہ ہے۔ جو صوبے کو ریونیو بھی دیتا ہے۔ یہاں پر زراعت، صنعت، ماہی گیری کے مواقع ہیں۔ کراچی جیسی سب سے بڑی مارکیٹ قریب ہے۔
انہوں نے کہا: ’یہ ضلع نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں پر مسائل بھی ہیں۔ غربت، بے روزگاری اورناخواندگی بھی ہے۔ ہم توقع کررہے تھے کہ اس علاقے کی معیشت مضبوط ہوگی تو بہت ساری معدنیات اور معاشی مواقع اس کو درمیانے درجے کے ترقی یافتہ ضلع بنا سکتے ہیں۔‘
منظور احمد کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں جام کمال نے جو نقطہ اٹھایا ہے وہ جائز مطالبہ ہے کہ اگر اس کو تقسیم ہی کرنا ہے تو سب سے مشاورت کی جائے۔
جام کمال نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس معاملے پر ایسا ہی جرگہ طلب کرکے تمام متعلقہ فریقین سے رائے طلب کی جائے اور اگر لوگ مان جائیں کہ لسبیلہ کی تقسیم ہونی چاہیے پھر کردیں۔ اگر عوام مسترد کردیں تو پھر فیصلہ واپس لینا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا لسبیلہ میں صرف جام کمال اور صالح بھوتانی سٹیک ہولڈر ہیں؟
منظور احمد کہتے ہیں کہ جام کمال اور صالح بھوتانی سیاسی رہنما ہیں اور علاقے سے منتخب ہونے والے نمائندے ہیں۔ تاہم ان کے علاوہ بھی ضلع لسبیلہ میں بہت سے دوسرے سٹیک ہولڈرز بھی موجود ہیں۔ جن میں مڈل کلاس عوام، کاروباری لوگ، پروفیشنل کلاس، مقامی برادریاں ہیں جن کو اس معاملے میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضلعوں کی تقسیم کے جیسے فیصلے ہمیشہ سوچ سمجھ کرکرنے چاہیے۔ اگر ہم ایک رخ کو دیکھ کر فیصلے کریں گے تو بلوچستان کے جو معروضی حالات ہیں۔ سماجی، معاشی، غربت بے روزگاری ہے۔ ان کے تناظر میں یہ مسائل کا باعث بن سکتے ہیں۔
ادھر سابق نائب ضلع لسبیلہ ابراہیم دودا کہتے ہیں، ’کس نے کہا کہ ضلع لسبیلہ تقسیم ہورہا ہے۔ کوئی دوسری قوموں کو تقسیم نہیں کیا جارہا ہے۔ یہ ایک انتطامی معاملہ ہے۔‘
ابراہیم دودا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا، ’وقت کے ساتھ ضلعوں اور شہروں کی آبادیاں بڑھ رہی ہیں۔ مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ کل آبادی کیا تھی اور آج کیا ہے جس کے لیے ضلعوں کی تقسیم کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
جام کمال کی مخالفت کے سوال پرانہوں نے کہا کہ جو مخالفت کررہے ہیں ان کی اپنی رائے ہے اور بیانیہ ہے۔ اس کو ہونا چاہیے۔ آبادی بڑھ گئی ہے اور مسائل میں اضافہ ہوگیا ہے اور امن وامان کا مسئلہ ہے۔
ابراہیم کے بقول: یہ سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ انتظامی مسئلہ ہے۔ یہاں کے عوام کے مسائل اور آبادی میں اضافے کے باعث سہولیات تک لوگوں کی رسائی کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ تبدیلی یہ ہوگی کہ ایک بجائے دو ڈپٹی کمشنر ہوں گے۔ اسی طرح دوسرے اداروں کے سربراہان میں اضافہ ہوگا۔‘
انہوں نے کہا: ’ضلع کی تقسیم سے لوگوں کی اداروں تک رسائی کے لیے خرچ ہونے والے پیسے بچ جائیں گے۔ اس سے نہ لاسی قوم یا دوسری اقوام تقسیم ہوں گی۔ اس طرح کے فیصلے بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں بھی کیے گئے ہیں۔‘
لسبیلہ کہاں واقعہ ہے؟
پاکستان پاورٹی ایلویشن ( پی پی ایف) کے ایک سروے کے مطابق ضلع لسبیلہ بلوچستان کا ساتواں بڑا ضلع ہے۔ جس کی سرحد سندھ، آواران، گوادر اور خضدار سے منسلک ہے۔
اس کی نوتحصلیں ہیں جن میں بیلہ، اوتھل، حب ، لاکھڑا، سومیانی، دریجی، لیری، گڈانی اور کنیج ہیں۔
لسبیلہ کو 30 جون 1954 کو قلات سے الگ کیا گیا ہے۔ اس کا رقبہ 15153 اسکوائر کلو میٹر پر مشتمل ہے۔ یہاں پر بلوچ، براہوی، مڈ، خوجہ، ہندؤں کے علاوہ بڑی آبادی لاسی کہلاتی ہے۔ جن کی مزید پانچ شاخیں ہیں۔
لسبیلہ بلوچستان کے لیے ریونیو دینے میں پاکستان کے لیے کراچی جیسا ہے۔ یہاں سے صوبے کو 70 فیصد ریونیو ملتا ہے۔
ضلع کی تقسیم کی تجویز دینے والے ممبر صوبائی اسمبلی اور صوبائی وزیر بلدیات سردار صالح بھوتانی سے رابطہ کرکے ان کا موقف لینے کی کوشش کی گئی تاہم ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔
گو کہ ضلعوں کی تقسیم کے معاملات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ تاہم ضلع لسبیلہ کی تقسیم کے معاملے پر جام کمال کے سخت موقف نے سیاسی ماحول میں تناؤ پیدا کردیا ہے۔