یہ تحریر بلاگ نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
چینی کھانوں میں ہاٹ پاٹ کو ایک الگ مقام حاصل ہے۔ ہاٹ پاٹ کو چینی زبان میں ’ہوا گوا‘ کہتے ہیں۔ ’ہوا‘ کا مطلب آگ اور ’گوا‘ کا مطلب برتن اور یہی ہاٹ پاٹ ہے یعنی آگ پر رکھا ہوا برتن۔
اس برتن میں شوربہ ابل رہا ہوتا ہے۔ برتن کے ارد گرد کچا گوشت اور کچی سبزیاں رکھی ہوتی ہیں۔ انہیں شوربے میں ڈال کر اسی وقت پکا کر کھایا جاتا ہے۔
مجھے شروع میں ہاٹ پاٹ پسند نہیں آیا تھا۔ اب پوچھیں تو ہاٹ پاٹ میرے پسندیدہ چینی کھانوں میں سے ایک ہے۔ اتنا پسندیدہ کہ اب میں اس میں نان بھی ڈبو کر کھانے لگی ہوں۔ اگرچہ ایسے کرتے ہوئے مجھے خود عجیب سا محسوس ہو رہا تھا۔
میرا خیال ہے کہ نان کے ساتھ ایسا سلوک صرف پائے یا نہاری کی موجودگی میں ہی کیا جا سکتا ہے۔
پچھلے ہفتے ایک اویغور دوست کے ساتھ ہاٹ پاٹ کھانے گئی تو اسے شوربے میں نان ڈبو کر کھاتے ہوئے دیکھ کر میں نے بھی اپنے نان کو شوربے میں غسل دے ہی دیا۔ اچھا ذائقہ تھا۔ پائے ہوتے تو کیا ہی بات تھی۔ پر چلو ہاٹ پاٹ کا شوربہ ہی سہی۔
ہاٹ پاٹ کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ ایک روایت کے مطابق چین پر حملہ کرنے والے منگول سپاہی ابلتے ہوئے شوربے میں گوشت کے ٹکڑے پکا کر کھایا کرتے تھے۔ چین کو منگول تو پسند نہیں آئے لیکن ان کے کھانے کا یہ طریقہ بھا گیا۔
چھنگ بادشاہت کے دور میں میں ہاٹ پاٹ بادشاہوں کی پسندیدہ خوراک بن گیا تھا۔ چھیان لونگ نامی بادشاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہر کھانے میں ہاٹ پاٹ ہی کھایا کرتے تھے۔
آج چین میں ہاٹ پاٹ ہر جگہ عام دستیاب ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں نے جب پہلے بار ہاٹ پاٹ کھایا تو مجھے وہ کافی عجیب سا لگا تھا۔ ایک چینی دوست مجھے ہاٹ پاٹ کھلانے لے گئی تھیں۔ ویٹر نے بتایا کہ ہم چار اقسام کے شوربوں میں سے اپنی پسند کا شوربہ چُن سکتے ہیں۔ میں نے سپائسی شوربہ منگوایا جبکہ میری دوست نے اپنے لیے ٹماٹر کا شوربہ منگوایا۔
دیگر اقسام میں مرغ کی یخنی اور زیادہ سپائسی کا ذائقہ دستیاب تھا۔
اس وقت ہاٹ پاٹ کے بارے میں میری معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ دوست نے خود ہی مینیو کارڈ دیکھ کر بہت سی سبزیوں اور گوشت کا آرڈر دے دیا تھا۔
پھر وہ مجھے ایک طرف بنے کاؤنٹر پر لے گئیں۔ وہاں ہاٹ پاٹ کی چٹنی کے لیے مختلف اجزا رکھے تھے۔ بنیادی چٹنی مونگ پھلی کی ہوتی ہے۔ اس میں دیگر چٹنیوں کا اضافہ کر کے اپنی پسند کی چٹنی بنائی جا سکتی ہے۔
میں نے اپنی چٹنی میں تھوڑی سی سویا ساس، دھنیا، لہسن، اور چلی آئل ملایا اور واپس میز پر آ گئی۔
تھوڑی دیر میں ویٹر ہمارے سامنے میز پر نصب ہاٹ پلیٹس پر شوربے کے پیالے رکھ گیا۔ کچھ دیر میں گوشت اور سبزیاں بھی آ گئیں۔
گوشت انتہائی باریک پارچوں میں کٹا ہوا تھا۔ سبزیاں بھی باریک اور موٹے قتلوں کی صورت میں تھیں۔
دوست نے کہا کہ جو کھانا ہو اسے شوربے میں ڈال کر کچھ دیر پکاؤ اور پھر چٹنی میں ڈبو کر کھاؤ۔ میں نے گوشت کا ایک ٹکڑا اپنے سامنے رکھے برتن میں ڈالا۔
اس کے پکنے کا یقین ہوا تو اسے نکال کر پلیٹ میں رکھا۔ پھر چٹنی میں ڈبو کر منہ میں رکھا۔ بس ایویں سا لگا۔
میری عادت سالن کے ساتھ روٹی یا چاول کھانے کی تھی۔ یہاں ہر شے کو الگ الگ کھانا تھا۔
مجھے نہیں یاد کہ اس کے بعد میں نے کئی ماہ تک ہاٹ پاٹ کھایا ہو۔
دوبارہ ہاٹ پاٹ زبردستی کھانا پڑا۔
میں اور میرے کچھ دوست ایک پروفیسر کے ساتھ سفر پر گئے تھے۔ اس سفر میں ایک جگہ ہمیں ایک جگہ کھانے کے لیے ہاٹ پاٹ پیش کیا گیا۔
اس زمانے میں ہم دوست کھانے کے معاملے میں بہت احتیاط کرتے تھے۔ ہم نے اپنے میزبان سے کہا کہ ہم سبزی خور ہیں، گوشت نہیں کھاتے۔
ہمارے میزبان نے ہمارے سامنے ہر قسم کی سبزی لا کر رکھ دی۔
اس دن میں نے ہاٹ پاٹ میں آلو، شلجم، گوبھی، کے علاوہ مولی کے قتلے بھی ابال کر کھائے تھے۔
گرچہ مجھ جیسی گوشت خور کو اس دن گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نصیب نہیں ہوا تھا، لیکن مزہ بہت آیا تھا اور اس کی وجہ ہاٹ پاٹ کلچر تھا۔
ہم دوست ایک برتن کے گرد بیٹھے باتیں کرتے ہوئے اپنا اپنا کھانا پکا کر کھا رہے تھے۔ اس دن ہماری دوستی پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی تھی۔
چین میں خاندانی نظام خاصا مضبوط ہے اور اس مضبوطی میں ایک ہاتھ چینی کھانوں کا بھی ہے۔ چینی ایسے کھانے پسند کرتے ہیں جو انہیں ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں۔
جیسے چینی نئے قمری سال کے موقعے پر مل جل کر ڈمپلنگز بناتے اور کھاتے ہیں۔ ان کے لیے ڈمپلنگز کی تیاری کرنا، انہیں بنانا، پکانا اور پھر کھانا ایک ایسا عمل ہے جو ان کے خاندان کو اکٹھا کرتا ہے۔
ہماری طرح نہیں کہ ایک عورت نے شامی کباب کا آمیزہ تیار کیا اور پھر ایک جگہ بیٹھی کئی گھنٹوں تک شامی کباب بنا رہی ہے اور باقی لوگ اس سے دور بیٹھے اپنی اپنی سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔
ہاٹ پاٹ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اسے اکیلے نہیں کھایا جا سکتا۔ اس کا مزہ گھر والوں، یا دوستوں کے ساتھ کھانے میں ہی ہے۔
باتیں کرتے ہوئے انسان اپنے سامنے رکھے برتن میں وہ چیز بھی پکا کر کھا جاتا ہے جو ویسے وہ کبھی اس صورت میں پکی ہوئی نہ کھائے۔
جیسے میں نے مولی کے قتلے کھائے اور نان ڈبو کر کھایا۔ ورنہ کوئی لاہوری ایسی غلطی بھلا کیسے کر سکتا ہے۔