وزیراعظم نے 40 ماہ کے دور حکومت میں کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے تیسری ایمنسٹی سکیم کا اعلان کیا ہے۔
2019 میں ٹیکس ایمنسٹی، 2020 میں کنسٹرکشن ایمنسٹی اور 28 فروری 2022 کو انڈسڑی ایمنسٹی سکیم لانچ کی گئی۔ پہلی دو ایمنسٹیوں کو کامیاب قرار دیا جاتا ہے، کیا تیسری ایمنسٹی بھی کامیاب ہو سکے گی یا نہیں، اس حوالے سے ماہرین کی رائے مختلف ہے۔
اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 10 روپے اور بجلی کی قیمتوں میں پانچ روپے تک کمی پر بھی مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس بارے میں سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ’ایمنسٹی سکیم ناانصافی کے مترادف ہے۔ اس سکیم کے ذریعے ایک باعزت شہری جو سارا سال ٹیکس ادا کرتا ہے، اسے ایک ایسے شخص کے برابر تصور کیا جاتا ہے جو ٹیکس چوری کرتا ہے۔ ٹیکس چور کو سزا ملنی چاہیے جبکہ حکومت اس کے بچاؤ کے لیے نت نئی سکیمیں متعارف کروا رہی ہے۔‘
ان کے مطابق: ’موجودہ ایمنسٹی سکیم ماضی کی طرح بہتر نتائج نہیں دے سکے گی، کیونکہ انڈسٹری ایمنسٹی سکیم کی شرائط ایسی ہیں کہ ان سے عام پاکستانی کے لیے فائدہ اٹھانا مشکل ہے۔ جن لوگوں نے پچھلے سالوں میں ایمنسٹی حاصل کی ہے وہ موجودہ ایمسنٹی کے لیے نااہل ہیں، جبکہ ملک میں ایمنسٹی سے فائدہ اٹھانے کی حیثیت انہی لوگوں کی ہے جنہوں نے پچھلے سالوں میں ایمنسٹی حاصل کی تھی اور ملک کا بڑا سرمایہ بھی انہی کے ہاتھوں میں ہے۔
’اگر وہ ایمنسٹی سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتے تو پھر کون کرے گا؟ عام پاکستانی کے پاس اتنا سرمایہ نہیں کہ وہ ایمنسٹی کلیم کرنے کے بارے میں سوچ بھی سکے۔ اس کے علاوہ پانچ کروڑ یا اس سے زیادہ کے مینوفیکچرنگ کاروبار پر ایمنسٹی دی جائے گی۔ رقم کی یہ حد زیادہ ہے۔ ملک میں سمال اور میڈیم سائز کی صنعتیں لگنے کی ضرورت ہے، جن کی مالیت پانچ لاکھ سے 50 لاکھ تک ہے۔ اگر اس طبقے کو بھی شامل کر لیا جاتا تو ایمنسٹی سے حقیقی فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا۔‘
سابق وزیرِ خزانہ نے کہا کہ ’کالے دھن کو سفید کرنے کا ریٹ پانچ فیصد رکھا گیا ہے جو ماضی کی نسبت زیادہ ہے۔ انڈسٹری ایمنسٹی میں آمدن پچھلی دو سکیموں کی نسبت کم ہو سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ بالکل ہی ناکام ہو جائے گی۔ ملک کی دس بڑی کمپنیوں نے 900 ارب روپے منافع کمایا ہے۔ یہ وہ اعداد ہیں جو ڈکلئیر کیے گئے ہیں، جنہیں ظاہر نہیں کیا گیا وہ حساب کتاب ان سے زیادہ ہے۔ ممکنہ طور پر وہ بلیک منی اس مرتبہ وائٹ کروائی جا سکتی ہے۔‘
اس کے علاوہ عبدالحفیظ شیخ نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے کہا کہ ’یہ ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن زیادہ بہتر ہوتا اگر آٹا، چینی، گھی جیسی بنیادی اشیا کی قیمتیں کم کر دی جاتیں۔ عالمی مارکیٹ میں پیٹرول 116 ڈالر فی بیرل ہو چکا ہے، جس کے مطابق پاکستان میں پیٹرول 190 روپے فی لیٹر ہونا چاہیے تھا۔ حکومت نے دس روپے کی سبسڈی نہیں دی بلکہ 40 روپے کی سبسڈی دی ہے۔ اگلے چار ماہ تک اگر یہ دینا پڑ جائے تو یہ تقریباً 250 ارب روپے سے زیادہ رقم بنتی ہیں۔ حکومت کب تک یہ برداشت کرے گی اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ لیکن شاید موجودہ حالات میں حکومت کے لیے اسے لمبے عرصے تک برقرار رکھنا ممکن نہ ہو۔‘
البتہ جب انڈپینڈنٹ اردو نے اسی بارے میں کرنسی ڈیلر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ کی رائے جاننے کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے ایمنسٹی کے فیصلے کو درست قرار دیا، تاہم انہیں بھی شرائط پر اعتراض ہے۔
انہوں نے کہا، ’جس دروازے سے آپ گزر نہیں سکتے وہ کھلا ہو یا بند ہو اس سے فرق نہیں پڑتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق ’یہ سکیم شاید چینی باشندوں کے لیے لائی جا رہی ہے۔ چینی مصنوعات کو یورپ اور امریکہ میں مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے، کرونا وبا کے بعد ’میڈ ان چائنا‘ برینڈ اپنی حیثیت برقرار نہیں رکھ پایا۔ اس کے علاوہ امریکہ اور چین کے درمیان لفظی گولہ باری کے بعد چین کے مال کو ماضی جیسی پذیرائی نہیں مل رہی۔ اطلاعات کے مطابق چینی پاکستان میں ٹیکسٹائل کا سب سے بڑا منصوبہ لگا رہے ہیں۔ چینی کپڑوں پر پاکستانی مہریں لگا کر برآمد کیے جا رہے ہیں، اور ممکنہ طور پر چینی پاکستان میں فیکٹریاں لگانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ انڈسٹری ایمنسٹی سکیم چینیوں کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی ہو۔‘
تیل کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا: ’ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کے دباؤ میں آ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔ یہ لانگ مارچ اور عدم اعتماد کے باعث ممکن ہوا ہے۔ پہلے وفاقی حکومت کا موقف تھا کہ ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں۔ دنیا میں پیٹرول مہنگا ہو رہا ہے تو ہم سستا کیسے بیچ سکتے ہیں۔ صرف دو دن میں ایسا کیا ہو گیا کہ فنڈز بھی آ گئے اور عوام کو ریلیف بھی دے دیا۔ اس حوالے سے وزیراعظم کا ٹویٹ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ جس میں انہوں نے بتایا کہ فروری کے مہینے میں ایف بی آر نے طے شدہ حدف 441 ارب سے 28 فیصد زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا ہے، جس کی وجہ سے ہم نے عوام کو ریلیف دیا۔ یہ وجہ زیادہ مناسب دکھائی نہیں دیتی، کیونکہ ایف بی آر کئی ماہ سے اپنے ہدف سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کر رہا ہے۔ اگر اس وجہ سے عوام کو ریلیف دینا ہوتا تو ماضی میں بھی دیا جاتا۔ ‘
اس کے علاوہ ماہرِ معاشیات فرخ سلیم کا موقف جاننے کے لیے جب ان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پیٹرول کی قیمت میں کمی معیشت پر خود کش حملہ کرنے کے مترادف ہے۔ ’آئی ایم ایف کا دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ پہلی ایمنسٹی بھی آئی ایم ایف کی مرضی کے خلاف جا کر دی گئی تھی۔ دوسری ایمنسٹی میں کرونا کی وجہ سے آئی ایم ایف نے اجازت دی تھی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ موجودہ ایمنسٹی سے پہلے آئی ایم ایف سے اجازت لے لی گئی ہے، لیکن اطلاعات کے مطابق آئی ایم آف کو اس پر تحفظات ہیں۔ ابھی پانچ فروری کو آئی ایم ایف کی قسط ملی ہے۔ اگلی قسط سے پہلے حکومت یہ فیصلے واپس لے سکتی ہے۔‘
ایمنسٹی سکیم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اگر ایمنسٹی سکیموں سے ہی ملک چلانا ہے تو ٹیکس نظام کی کیا ضرورت ہے۔ تین سالوں میں تین ایمنسٹیاں دینے کا مطلب ہے کہ پانچ سالوں میں پانچ ایمنسٹی سکیمیں دی جا سکتی ہیں۔ جو کہ صاف اور شفاف ٹیکس نظام کے خلاف ہے۔
حکومت پاکستان نے ہدف طے کیا ہے کہ وہ مینوفکچرنگ بیس کو 23 فیصد سے 25 فیصد تک لے کر جائیں گے، جو کہ انڈسٹری ایمنسٹی سکیم سے ممکن ہو سکتا ہے۔ شرح نمو کو چھ فیصد تک لگ جانے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔ اکثر اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ جب شرح نمو پانچ فیصد تک پہنچتی ہے تو پاکستانی معیشت ہاتھ سے نکل جاتی ہے، درآمدات بڑھ جاتی ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ ہوتا ہے اور ڈالر ہر دباؤ بڑھتا ہے۔
یہ اعتراض بجا ہے کیونکہ مینوفیکچرنگ بڑھانے کے لیے مشینیں درآمد کرنا پڑتی ہیں جو انڈسٹری ایمنسٹی سکیم کے بعد مزید بڑھ جائیں گی۔ لیکن معاشی ترقی کرنے کے لیے کہیں سے تو ابتدا کرنا ہو گی۔ آج جو مشینیں درآمد ہو رہی ہیں وہ کل پاکستان میں بھی تیار ہو سکتی ہیں۔ میں بہت سے ایسے صنعت کاروں کو جانتا ہوں جنہوں نے پہلے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے پارٹس درآمد کیے لیکن اب وہ انہیں پاکستان میں تیار کر رہے ہیں۔ ان حالات میں امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دن ماضی کی نسبت بہتر ہو سکتے ہیں۔
لیکن اپوزیشن اس ریلیف پیکج کے بعد بھی معترض دکھائی دیتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے ادھار تیل کی پہلی قسط مارچ میں موصول ہونے کے باعث تیل کی قیمتیں کم کی گئی ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب سے تیل ادھار ملا ہے، سستا نہیں۔ اس سے ڈالر کی رسد اور طلب پر تو فرق پڑ سکتا ہے لیکن ریٹ کم نہیں ہو سکتا۔
اس کے علاوہ تیل کی قیمتیں کم ہونے کو آنے والی حکومتوں کے خلاف سازش قرار دینا بھی مضحکہ خیز ہے۔ نئی حکومت بننے میں ابھی ڈیڑھ سال باقی ہے، موجودہ حکومت یہ ریلیف زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکے گی۔ اس کے علاوہ عوامی ریلیف پیکج کو ملکی خزانے پر بوجھ قرار دینا نامناسب دکھائی دیتا ہے۔ ملکی خزانے کے ذخائر عوام کے ٹیکس کی مرہون منت ہیں۔ اگر مشکل حالات میں انہیں انہی کے پیسوں سے ریلیف دیا گیا ہے تو اس پر تنقید نہیں کی جانی چاہیے۔
اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ٹیکس نظام کو مضبوط نہ کیا جائے۔ ملک میں ٹیکس کنٹرولز مزید سخت کیے جانے کی ضرورت ہے لیکن وقت آنے پر اس پریشر کُکر سے تھوڑی ہوا نکال دینا بہتر ہے۔ تاکہ پریشر کُکر کو پھٹنے سے بچایا جا سکے۔