کہتے ہیں کہ جس زبان پر عبور نہ ہو اس میں شاعری نہیں کرنی چاہیے، اسی طرح جس موضوع کا ادراک نہ ہو اس پر فلم نہیں بنانی چاہیے۔
کامیڈی ایک انتہائی مشکل کام ہے اور اس پر فلم بنانا اس سے کہیں زیادہ مشکل۔
اس کے باوجود پاکستانی ’عشرت میڈ ان چائنا‘ بنی، اور اس کے ساتھ وہی ہوا جو کھانا پکنے کے دوران گیس بند ہوجانے کی وجہ سے کھانے کے ساتھ ہوتا ہے۔
اداکار محب مرزا کی ہدایاتکاری میں بننے والی اس فلم میں وہ سب کچھ تھا جو نہیں ہونا چاہیے۔
آدھے ادھورے کردار، سستی جگتیں مارتے ہوئے اداکار، اوور ایکٹنگ کا سجا شاپنگ مال اور سب سے بڑھ کر ان تمام کا بار بار چوتھی دیوار توڑنا۔
محب مرزا نے بحیثیت اداکار اور ہدایتکار یہ فلم بنانے کی کوشش کی ہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ 75 فیصد فلم میں تو وہ خود کیمرے کے سامنے ہیں، ایسے میں کیمرے کے پیچھے سے ہدایات کون دے گا؟
ہیرو کا نام عشرت کیوں رکھا گیا یہ تو بتادیا، لیکن صنم سعید کا نام اختر کیوں تھا یہ بتانا بھول گئے۔
فلم عشرت کا کردار اور اس کا پس منظر بتانے میں اتنا وقت ضائع کرتی ہے کہ دیگر کرداروں کے لیے وقت بچتا ہی نہیں۔
کالج میں پڑھنے والا عشرت گدھا گاڑی ریس کا چیمپیئن ہے اور اس وجہ سے اسے چین جاکر گدھا گاڑی ریس میں شرکت کے لیے کہا جاتا ہے جس کے جیتنے پر 10 لاکھ یوان (تقریباً) ڈھائی کروڑ ملنے تھے۔
جی بالکل گدھا گاڑی ریس، گھوڑے نہیں، سائیکل نہیں بلکہ گدھا گاڑی۔
اس فلم میں کاسٹنگ کے بھی شدید مسائل تھے۔ جب محب مرزا اور صنم سعید کالج میں زیر تعلیم لڑکے لڑکی کا کردار کریں گے تو بنیاد تو یہیں سے غلط پڑ گئی۔
چین میں سب اردو بول رہے ہیں، اس کا طریقہ یہ تھا کہ عشرت نے چین پہنچ کر سکرین پر لینگویج آپشن اردو کردیا اور سب اردو بولنے لگے، لیکن عشرت نے اس میں پنجابی کا بٹن کب دبایا تھا جو کردار بیچ بیچ میں پنجابی بولتے تھے؟
اگر اداکاری کی بات کریں تو محب مرزا، جن پر سے پوری فلم میں کیمرا مشکل سے ہی ہٹا تھا، متاثر کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔
ان کا بار بار ’چوتھی دیوار توڑنا‘ مزاحیہ نہیں بلکہ کچھ دیر کے بعد المیہ محسوس ہونے لگا۔
صبح سو کر اٹھا ہو یا جنگل میں بے ہوش پوری رات گزار کے صبح جاگا ہو، ہیرو کی شیو بنی ہوئی ہے اور بال ذرا بھی جو بکھرے ہوں۔
فلم کا ہیرو کالج میں پڑھنے والا لڑکا ہے جس پر درجنوں لڑکیاں مرتی ہیں اور اس کا کمال ہے، گدھا گاڑی کی دوڑ۔
اگر آپ کو یہ عجیب لگا تو یہ بھی جان لیں کہ فلم میں نیا موڑ کب آیا جب عشرت کا پراڈو (گدھا) مرگیا اور وہ چین جاکر گدھا گاڑی ریس میں شرکت کرکے 10 لاکھ یوان جیتنا چاہتا ہے۔
صنم سعید کے کردار اختر میں کرنے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں، ایک گانا تھا جس میں رقص تک نہیں ہوسکا۔
سارہ لورین کے پاس بھی ایک گانے اور چند سینز کے علاوہ کچھ نہیں، مگر سارہ سے کسی کو اداکاری کی توقع ہوتی بھی نہیں ہے۔ انہوں نے چند سین میں خوبصورت لگنے کا کام ضرور کیا اور کہانی ختم۔
شمعون عباسی نے البتہ سکرین پر کچھ کام دکھایا۔ وہ عرصے کے بعد مثبت کردار میں تھے، لیکن ان کے کردار کا اثر وہ ایک پنجابی میں بولا گیا جملہ ختم کردیتا ہے۔
حسن شہریار یاسین نے بطور ولن کچھ کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی کچھ ہوا۔ ولن کو مار پڑی بہت کچھ ہوا لیکن چہرہ خراب نہیں ہونے دیا۔
اس فلم میں مانی، علی کاظمی اور مصطفٰی چوہدری بھی تھے۔ یہ تینوں پاکستان میں بھی تھے اور ان کے ہمشکل چین میں۔
اب یہ کیوں تھے یہ نہیں معلوم۔ چند سینز کے علاوہ فلم میں ان کا کوئی کام نہیں تھا۔ امکان یہی ہے کہ ان کا کام ایڈیٹنگ میں کاٹا گیا ورنہ اتنے کم سینز کے لیے یہ لوگ فلم سائن ہی نہیں کرتے۔
فلم کا کلائمکس بھی ایک نرالے انداز میں تھا۔ اگر آپ نے ’بین حر‘ دیکھی ہے تو گھوڑوں کو گدھوں سے بدل دیں اور سیٹ کی تمام اشیا لالو کھیت سے خرید لیں۔
ویسے اگر آپ نے مہا بھارت دیکھی ہے تو کلائمکس کے دوران آپ یہ ضرور سوچیں گے کہ کرن بیچارہ رتھ کا پہیہ نکالتے ہوئے بلاوجہ مارا گیا یا ابھی منیو کو رتھ کا پہیہ اٹھا کر ایسے لڑنا چاہیے تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کرونا وبا کی عالمی وجہ سے عائد پابندیوں کے بعد گذشتہ نومبر میں جب سینما گھر کھلے تو درجنوں تیار فلموں میں سے جن چند فلموں پر پاکستانی سینما کے احیا کا تکیہ تھا ان میں سے ایک ’عشرت، میڈ ان چائنا‘ بھی تھی۔ لیکن اس فلم نے بری طرح مایوس کیا۔
ٹریلر دیکھ کر محسوس ہوا تھا کہ یہ ’چاندنی چوک ٹو چائنا‘ کی نقل ہوگی، جو خود ’کَنگ فو پانڈا ‘کی نقل تھی لیکن اگر یہ نقل ہوتی تو شاید بہتر ہوتی۔
پاکستان میں بولی وڈ کی ان فلموں کی نقل کرنا جو ہالی وڈ کی نقل ہوں، 90 کی دہائی میں عام تھا مثلاً ’ویئر ایگلز ڈیئر‘ کی نقل بالی وڈ میں ’تہلکہ‘ بنی اور پھر پاکستان میں ’عقابوں کا نشیمن‘۔
محب مرزا کا عشرت کا کردار ٹی وی پر مشہور ہوا تھا۔ ٹی وی پر مشہور ہونے والے کرداروں پر فلم بنانا کوئی نئی بات نہیں، لیکن کم از کم اس کردار میں جان ڈالنا اور ٹی وی سے آگے بڑھ کر نئے زاویے تلاش کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔
پاکستانی فلمیں ابھی اپنے مستقل ناظرین کی تلاش میں ہیں کیوں کہ سال بھر میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی دو درجن کے قریب فلموں میں سے تین چار ہی کسی قابل ہوتی ہیں۔