وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان امن کے لیے یورپی یونین کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہے مگر ’ہم جنگ میں کسی کا ساتھ نہیں دیں گے۔‘
گورنر ہاؤس سندھ میں بدھ کو ایک تقریب سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے یورپی یونین کے حوالے سے اپنے ایک بیان پر اپوزیشن کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’میں نے کچھ نہیں کہا، میں نے صرف ان کو یاد کرایا ہے کہ جب ہم نے آپ کے ساتھ آپ کی جنگ میں شرکت کی تو ہمارے 80 ہزار لوگ مارے گئے تھے۔‘
وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے قبائلی علاقے تباہ ہو گئے تھے اور ہمارے ملک میں لاکھوں لوگوں نے نقل مکانی کی۔ ہم امن کے لیے آپ کا ساتھ دیں گے، مگر ہم کسی جنگ میں آپ کے ساتھ نہیں ہوں گے۔‘
اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن قیادت کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو اپوزیشن کی ’سیاسی موت‘ قرار دیا ہے۔
بہادرآباد میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی قیادت سے ملاقات کے بعد گورنر ہاؤس میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’اندرون سندھ کے لوگوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں آزادی کا وقت قریب آ گیا ہے۔‘
پیپلز پارٹی کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ’آزادی کا وقت آگیا ہے، سندھ کے لوگ آصف علی زرداری سے آزادی چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے تحریک عدم اعتماد کو اپوزیشن کی ’سیاسی موت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر یہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جاتی ہے تو میں اپوزیشن کا پیچھا کروں گا۔‘
دوسری جانب پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنماؤں سے ملاقات کے حوالے سے عامر احمد خان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم سے ملاقات کے دوران تحریک عدم اعتماد سے متعلق بات ہی نہیں ہوئی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے بدھ کو کراچی میں ایم کیو ایم کے بہادر آباد میں واقع عارضی دفتر کا دورہ کیا، جہاں ان کی متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت سے ملاقات ہوئی ہے۔
یہ وزیراعظم عمران خان کا بطور وزیراعظم ایم کیو ایم کے مرکز کا پہلا دورہ تھا۔
ایم کیو ایم قیادت سے ملاقات کے دوران وفاقی وزرا شاہ محمود قریشی، اسدعمر، علی زیدی موجود تھے جبکہ ایم کیو ایم کی جانب سے خالد مقبول، عامر خان، امین الحق، کنور نوید اور وسیم اختر سمیت دیگر رہنما شریک تھے۔
ملاقات کے بعد ایم کیو ایم رہنما عامر احمد خان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ملاقات کے دوران مردم شماری اور حیدرآباد کی یونیورسٹی سے متعلق بات چیت ہوئی اور امید ہے کہ اس پر عمل ہوگا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایم کیو ایم اپوزیشن جماعتوں سے بھی رابطے میں ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ’ایم کیو ایم حکومت کی اتحادی ہے مگر دیگر آپشنز بھی کھلے ہیں۔‘
عامر احمد خان نے کہا کہ ’ساڑھے تین سال بعد ہی سہی وزیراعظم ان سے ملاقات کرنے تو آئے، یہ ایک اچھی بات ہے۔‘
ایم کیو ایم حکومت سے کس بات پر ناراض ہے؟
کراچی پر کئی سال تک ’راج‘ کرنے والے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کی جانب سے 22 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے والے پارٹی کارکنان سے خطاب میں مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقریر کے بعد پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا جس کے دوران پارٹی کے مرکز نائین زیرو سمیت کراچی حیدرآباد اور دیگر شہروں میں موجود دفاتر کو یا تو گرا دیا گیا تھا یا سیل کردیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ کریک ڈاؤن کے دوران ایم کیو ایم کے فلاحی ادارے خدمت خلق فاؤنڈیشن کو بھی بند کر دیا گیا تھا۔
2018 کے الیکشن کے بعد جب ایم کیو ایم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی اتحادی بنی تو ایم کیو ایم کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ انہیں پارٹی کے دفاتر کھولنے، کام کرنے کی اجازت دینے کے علاوہ خدمت خلق فاؤنڈیشن کو بھی کام کرنے کی اجازت دی جائے۔
اس مطالبے پر وزیراعظم عمران خان نے ایم کیو ایم سے عہد کیا تھا کہ وہ ایم کیو ایم کو دفاتر کھولنے اور خدمت خلق فاؤنڈیشن کو فعال کرنے میں مدد کریں گے۔
اس کے علاوہ 2017 کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو کم دکھانے کا دعویٰ کرتے ہوئے ایم کیو ایم نے حکومت سے مردم شماری پر تحقیقات کرنے اور دوبارہ مردم شماری کرانے کا مطالبہ بھی کیا تھا، تاہم ایم کیو ایم کے مطالبے کے باجود حکومت نے 2017 کی مردم شماری کو درست قرار دیتے ہوئے سرکاری طور پر منظور کر لیا۔
ایم کیو ایم کراچی کے لیے بڑے ترقیاتی پیکیج کا بھی مطالبہ کرتی رہی ہے، جس پر بھی کوئی عمل نہ ہوسکا ہے۔
ستمبر 2020 میں وزیراعظم نے کراچی شہر کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے 1100 ارب روپے کے ایک پیکیج کا اعلان کیا تھا مگر اس پر بھی تاحال کوئی عمل نہیں ہوا ہے۔
قومی اسمبلی میں نمبر گیم اور حکومتی اتحادیوں کی نششتوں کی تعداد
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشنز پر ہے۔
قومی اسمبلی میں اس وقت تحریک انصاف 342 میں سے 155 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن 84 اراکین کے ساتھ دوسرے، پیپلز پارٹی 56 نشستوں کے ساتھ تیسرے جبکہ متحدہ مجلس عمل 15 ایم این ایز کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف سادہ اکثریت لینے میں ناکام رہی، جس کے بعد حکومت بنانے کے لیے اسے اپنے اتحادیوں کی طرف رجوع کرنا پڑا تھا۔
قومی اسمبلی میں اتحادی جماعتوں کے ارکانِ پارلیمان کی تعداد 24 ہے جن میں متحدہ قومی مومنٹ پاکستان کے سات، مسلم لیگ (ق) کے پانچ، بلوچستان عوامی پارٹی یا بی این پی کے پانچ، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے تین، جمہوری وطن پارٹی کا ایک اور دو آزاد امیدوار اور عوامی مسلم لیگ کا ایک رکن شامل ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن اتحاد کے پاس 162 اراکین اسمبلی ہیں، جس میں سرفہرست مسلم لیگ ن 84 ایم این ایز، پیپلز پارٹی کے 56، متحدہ مجلس عمل پانچ ، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے چار، عوامی نیشنل پارٹی کے ایک جبکہ دو آزاد امیدوار شامل ہیں۔
اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے کم از کم دس ایم این ایز کے ووٹ درکار ہوں گے۔
وزیراعظم اتحادیوں کے کتنے ووٹ بچانے کراچی آئے؟
شہباز شریف، فضل الرحمن اور آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی میں پانچ اور پنجاب اسمبلی میں دس نشستیں رکھنے والی مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہی سے ملاقات کی تو حکومتی صفوں میں ہل چل مچ گئی۔
اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی ان ملاقاتوں کے بعد کہا جا رہا ہے کہ عمران خان بھی ایم کیو ایم کے سات اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے تین ووٹ بچانے کراچی گئے ہیں، تاکہ ناراض ایم کیو ایم اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کو منایا جا سکے۔
جی ڈی اے سربراہ کا وزیراعظم سے ملاقات سے معذرت
کراچی آنے سے قبل حکومت نے اپنے اتحادی جی ڈی اے کے سربراہ اور مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما پیر پگاڑا سے رابطہ کر کے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی، مگر پیر پگاڑا نے وزیراعظم سے ملاقات سے معذرت کر لی۔
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی رکن قومی اسمبلی سائرہ بانو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ دورہ کراچی کے دوران وزیر اعظم عمران خان کی پیر پگاڑا سے ملاقات نہیں ہو سکے گی کیوں کہ پیر پگاڑا کی طبیعت ناساز ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کی جماعت حکومت کی حمایت جاری رکھے گی، مشکل وقت میں بطور اتحادی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔