برطانوی شہری ہیلن میکلاگلن بتاتی ہیں کہ وہ اتنی تکلیف میں تھیں کہ ان کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اپنے آپ کو ایک گرم بوتل سے جلالیں، کیونکہ وہ درد اس درد سے بہتر ہوتا، جسے وہ برداشت کر رہی تھیں۔
ان کے تمام میڈیکل ٹیسٹ کلیئر تھے اور بقول ہیلن لندن کے ڈاکٹرز نے بھی مجھے یقین دلایا کہ ’میرے ساتھ خاص طبی مسٔلہ نہیں ہے اور یہ کہ یہ صرف میرے دماغ کا خلفشار ہے۔‘
ہیلن کی کہانی لاکھوں لوگوں کو اپنی کہانی معلوم ہوگی کیونکہ یہ مرض جس کا طبی نام اینڈومیٹریوسس (Endometriosis) ہے، دنیا بھر میں 10 میں سے ایک عورت کو لاحق ہے۔
لیکن اینڈومیٹریوسس پر تحقیق اتنی کم ہے اور اکثر اس کی درست تشخیص میں اتنا وقت لگتا ہے کہ یہ اس بات کی علامت بن چکی ہے کہ وہ بیماری جو صرف خواتین کو متاثر کرتی ہے، اسے مردوں کی اجارہ داری والی طبی تاریخ میں طویل عرصے سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
ہیلن 16 سال کی تھیں جب ان میں اینڈومیٹریوسس کی پہلی علامات ظاہر ہوئیں۔ اس بیماری میں وہ ٹشوز، جو عام طور پر بچہ دانی کے اندر ہوتے ہیں، اس کی بجائے باہر کی طرف بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔
جب انہوں نے برطانیہ میں اپنے ڈاکٹر کو بتایا کہ انہیں ہر دوسرے ہفتے ماہواری کا سامنا ہے تو انہوں نے ہیلن کو ایک گولی تجویز کر دی۔
جب وہ 25 سال کی عمر کو پہنچیں تو غلط تشخیص کے تقریباً ایک دہائی کے بعد انہیں اپنی ماہواری کے بعد درد میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ ان کے بقول: ’میرے پیٹ میں کھنچاؤ کا شدید احساس ہوتا تھا۔‘
ہیلن کے مطابق ایک سال بعد یہ درر ان کی ٹانگوں تک پھیل گیا تھا اور وہ دن کے 24 گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن درد میں مبتلا رہتی تھیں۔
’مجھے ہسپتال آتے جاتے دشواری تھی۔ میں کام نہیں کر سکتی تھی اور مجھے ایک دن میں 25 گولیاں لینا پڑی تھیں وہ بھی صرف درد سے بچنے کے لیے۔‘
تبدیلی تب آئی جب ان کے ایک دوست نے کہا کہ انہوں نے اسی طرح کی علامات والے کسی دوسری خاتون کے بارے میں سنا ہے، جن کو اینڈومیٹریوسس لاحق تھا۔
تاہم جب ہیلن نے اپنے ہسپتال میں اینڈومیٹریوسس کا تذکرہ کیا تو اس امکان کو مسترد کرتے ہوئے دوبارہ درد کش ادویات دے کر انہیں فارغ کر دیا گیا۔
انہوں نے بتایا: اینڈومیٹریوسس کی تشخیص اور سرجری کے لیے ’میں نے جنرل سرجن کو تین صفحات پر مشتمل خط لکھ کر صرف یہ گزارش کی کہ اس مرض کا نہ تو سکین کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی خون کے ٹیسٹ سے حتمی طور پر پتہ چل سکتا ہے۔ اس طرح بلآخر میری تشخیص ہوئی۔‘
اب ہیلن 37 سال کی ہیں اور لندن میں رہتی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ’خواتین کو متاثر کرنے والے بہت سے مسائل ہیں، جس کا مردوں کی بالادستی والی دنیا میں ذکر نہیں کیا جاتا۔‘
2020 کی ایک برطانوی پارلیمانی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اینڈومیٹریوسس کی شکار خواتین کو اس مرض کی تشخیص کے لیے اوسطاً آٹھ سال انتظار کرنا پڑا اس کے باوجود کہ ان میں سے نصف سے زیادہ خواتین نے علامات کے ساتھ 10 بار ڈاکٹرز سے مشورہ کیا تھا۔
امریکہ میں 2019 کے ایک مطالعے کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ سیاہ فام خواتین کے لیے اینڈومیٹریوسس کی تشخیص کرنا اور بھی مشکل ہے۔
برطانوی تاریخ دان ایلینور کلیگھورن کی کہانی ہیلن میکلاگلن سے ملتی جلتی ہے۔
جب درد نے انہیں ’کولہوں سے ٹخنوں تک‘ اپنی لپیٹ میں لے لیا تو ان کے خاندانی ڈاکٹر نے کہا کہ ان کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہے اور یہ قیاس کیا یہ صرف گٹھیا(gout) کا مسٔلہ ہے۔
کلیگھورن نے 2021 میں لکھی گئی اپنی کتاب میں لکھا کہ ڈاکٹر نے ان سے پوچھا : ’کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ کیا آپ جیسی پرکشش نوجوان خاتون حاملہ ہو سکتی ہے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ وہ حمل سے بچنے کے لیے گولی کھا رہی ہیں تو ڈاکٹر نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’یہ شاید صرف ہارمونز کی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔‘
ایک دہائی کے درد اور مایوسی کے بعد ایک ریمیٹولوجسٹ نے آخرکار اصل وجہ دریافت کر لی جو lupus تھی۔
فرانسیسی نیورو بائیولوجسٹ کیتھرین وڈال نے کہا کہ خواتین کی نام نہاد ’فطرت‘ اور ان کو کمزور مخلوق سمجھنا طب کی طویل تاریخ کا حصہ ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق مردوں اور لڑکوں کے مقابلے میں خواتین اور لڑکیوں میں ڈپریشن کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
ایک بار پھر اس کے لیے بھی ہارمونز کو روایتی طور پر مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
لیکن ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ صنفی اصول، جن کے نتیجے میں خواتین کو کم خودمختاری حاصل ہوئی جبکہ ان سے سماجی توقعات زیادہ ہیں، اس سب کے ذمہ دار تھے اور ساتھ ہی صنفی بنیاد پر ہراساں کیے جانے اور تشدد کا شکار ہونے سے ملنے والا صدمہ بھی اس کی وجہ ہے۔
یونیورسٹی ہاسپٹل آف لِلی کی ماہرِ امراضِ قلب کلیری مونیر ویہیر نے کہا کہ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ’خواتین اپنی صحت کے بارے میں کم فکر مند رہتی ہیں اور اکثر اسے اپنے خاندان یا کام کے مقابلے میں کم اہمیت دیتی ہیں۔‘
ایک فرانسیسی سروے سے پتہ چلتا ہے کہ دل کا دورہ پڑنے پر خواتین مردوں کے مقابلے میں اوسطاً 15 منٹ بعد ایمبولینس کو کال کرتی ہیں۔
2019 کی یورپی سوسائٹی آف کارڈیالوجی کی ایک تحقیق میں یہ بھی پتا چلا ہے کہ ’خواتین دل کے دورے کی علامات والے شوہروں، باپوں اور بھائیوں کے لیے ایمبولینس کو کال کر دیتی ہیں لیکن اپنے لیے نہیں۔‘
مونیر ویہیر کا کہنا ہے کہ ’ہمیں یہ محسوس کرنا چھوڑنا ہوگا کہ جب کوئی مرد گرتا ہے تو اسے دل کا دورہ پڑ رہا ہوتا ہے لیکن جب یہ عورت ہوتی ہے تو یہ محص بے ہوشی ہوتی ہے۔‘